تبدیلی کس طرح آئے؟

Feb 28, 2013

پروفیسر نعیم مسعود


جب سے سٹریٹجک اثاثہ معاشرے میں تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے تب سے جمہوریت اور جمہوری نظام اور بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوری نظام کو واقعی ایک نظام میں بدلنے کیلئے بیدار مغز دانشوروں کو سب سے پہلے بیدار ہونا پڑیگا۔ انکے بعد پڑھے لکھے افراد کو جاگنا ہو گا‘ تیسرے نمبر پر میڈیا آتا ہے جسے اذان دینی ہو گی۔ چوتھے نمبر پر علمائے کرام میں جنہیں علم کی شمع جلانی ہو گی اور تدبر کا راستہ اپنانا ہو گا ہاں پانچواں نمبر سیاستدانوں کا ہے وہ سیاستدان جو خدمت کے نام پر محض ”سیاہ ست“ کرتے ہیں اور اپنی اگلی پود کو مسندیں بخشنیں میں لگے رہتے ہیں یا اقربا پروری کے باغیچے کی باغبانی میں سیاہ و سفید بیج بوتے رہتے ہیں۔ میرا یہ کہنا جانے کچھ لوگوں کو‘ بالخصوص روایتی اسٹیبلشمنٹ طفیلیوں کو کتنا برا لگے کہ اچھی بری طلبہ تنظیموں کیلئے بھی اٹھان بہت ضروری ہے۔
درج بالا یہ نصف درجن چیزیں قابل غور ہیں‘ ممکن ہو تو انہیں مدنظر رکھ کر اگلی سطور کا تنقیدی و غیر تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ابتدا ہی میں عرض کر دوں کہ افواج پاکستان‘ عدلیہ اور وکلاءتنظیموں جیسے اہم طبقوں کو مذکورہ چھ گروپوں میں کیوں شامل نہیں کیا گیا‘ گزارش یہ ہے کہ وکلا تنظیموں نے سابق دور حکومت اور اس دور حکومت میں وہ کام کیا جو سنہری حروف ہیں کندہ کرنے کے قابل ہے لیکن پھر ان کا نشہ اس قدر بڑھتا گیا کہ وکیل تو وکیل انکے منشی حضرات نے بھی اپنے آپ کو عقل کل تصور کر لیا‘ میڈیا سے کچہری تک انہوں نے کسی کو اس قابل ہی نہیں سمجھا تھا کہ اسے خاطر میں لایا جائے۔ سائل سے عدالت تک کو انہوں نے ذاتی ماتحت جاننا شروع کر دیا اور ان کی پروفیشنل اپروچ رفتہ رفتہ ”سیاسی“ اور متکبرانہ شاہراہ پر چل نکلی۔ رہی بات افواج پاکستان اور عدالتوں کی‘ تو ان کا کام اپنی اپنی حدود میں رہ کر قوم سے وفا کرنا ہے‘ سیاست یا قانون سازی ان کا کام ہے۔ انہیں صاحب اقتدار ہونا چاہئے نہ صاحب حزب اختلاف‘ فوج کے سامنے ملک و ملت مقدم ہیں اور عدلیہ کے سامنے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے‘ وزیراعظم ہو کہ عام شہری‘ جو بھی انکے حضور جائے‘ عدلیہ کو آنے یا لائے جانے کی پاداش میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ سیاست کرنا‘ سیاسی بیان دینا یا ”نظریہ ضرورت“ کو مدنظر رکھنا عدلیہ اور عادل کا کام نہیں۔ اسی صورت میں بنا¶ ہے‘ بصورت دیگر بگاڑ ہے‘ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے!
بات چلی تھی اسٹرٹیجک اثاثہ کی۔ اگر کوئی طبقہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا سٹرٹیجک اثاثہ ہو اور دوسری طرف وہ من مانی کرتا پھرے اس سے جمہوری نظام‘ ملکی نظام اور انصاف کے تقاضے تار تار ہو جاتے ہیں۔ قانون اور انصاف سب کیلئے مساوی ہونا چاہئے۔ ذہین نشین رہنا چاہئے کہ عدلیہ نے آئین‘ قانون اور شواہد کی بنیاد پر چلنا ہوتا ہے اس لئے سارے معاشرے کو میٹھی نیند نہیں سو جانا چاہئے کہ سب کچھ عدالت ٹھیک کر دیگی‘ حتیٰ کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی۔ اس وقت پاکستان میں بھنور‘ پیچیدگیاں اور معاشی و معاشرتی دلدل مشرقی سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیل چکی ہے۔ آج اگر بیدار مغز اور انصاف پسند دانشور خول اور خوف سے باہر نہ آیا تو کوئی حکومت اور کوئی عدالت معاشرے کو مثبت راہوں پر نہیں لا سکے گی۔ آج دانشور بھی اگر اسٹیبلشمنٹ بن کر سٹریٹجک اثاثہ کو امان دینے بیٹھے گیا یا اپنے ذہن و قلب کو فراموش کرکے ”اثاثے“ کی چال چلنے لگا‘ تو آئندہ نسلیں اسے گالیاں دیں گی۔ جہاں غلط ٹکٹ دی جائے‘ جہاں کوئی پارٹی‘ اخلاقیات کا جنازہ نکالے‘ جہاں کوئی پارٹی یا پارٹی لیڈر اپنا اور اپنے رشتہ داروں کا بھی ٹھیکہ اٹھا لے کہ بس یہی پھولیں پھلیں‘ تو وہیں پر دانشور کو اٹھ کر کہنا ہو گا کہ یہ سیاست نہیں غنڈہ گردی ہے۔ کوئٹہ اور کراچی کے حالات سے لے کر ڈرون حملوں اور دہشت گردی پر بھی دانش ور کو سچ کہنا ہو گا۔
میڈیا کو دیکھنا ہو گا کہ کون جھوٹا اور کون سچا ہے‘ کون کھرا اور کون کھوٹا ہے‘ میڈیا کو ملک و ملت سے وفا کی پاسداری کرنی ہو گی‘ کسی لیڈر کی پاسداری سے ملکی فرائض اور اخلاقی فرائض کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ جو جو بھی جتنا برا ہے اسے اتنا برا نہ کہا گیا تو میڈیا کی جدید سمارٹنس بھی بنا¶ کی بجائے بگاڑ کی جڑوں کو مضبوط کریگی۔ میڈیا کی پاکستان میں حکمرانوں سے بھی زیادہ قدر و قیمت ہے‘ اس لئے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے؟ اس لئے میڈیا کو کسی بھی صورت میں کسی پارٹی یا فرد کا ترجمان نہیں‘ قوم کا ترجمان بننا چاہئے‘ اسی میں آن بان اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا عنصر ہے۔ آنیوالے الیکشن میں میڈیا ٹکٹوں کی تقسیم تک پر نظر رکھے۔ بلاشبہ اور بلامبالغہ آج میڈیا ہی ہے جو دفعات 62 اور 63 کو واقعی لاگو کر سکتا ہے گویا میڈیا الیکشن کمیشن سے بڑھ کر کمیشن اور عادل سے بڑھ کر عادل کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میںہے۔ پڑھے لکھے افراد جو اس قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں وہ میڈیا کو سننے اور سمجھنے تک محدود نہ رہیں بلکہ میڈیا تک اپنی آواز پہنچائیں۔ میڈیا اور پڑھے لکھے افراد میں آج کوئی خلیج حائل نہیں محض ایک قدم کا فاصلہ‘ جو قدم اٹھتا ہے وہی منزل کی دہلیز پر جا پہنچتا ہے۔
علمائے کرام ماضی کا سب سے بڑا میڈیا گروپ تھا اور آج بھی ہے ان کا براہ راست عوام سے گہرا اور عارفانہ تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ مکمل تیاری اور درد دل کے ساتھ عوامی کی تربیت کو شعار بنا لیں اور شہادت حق کا بیڑا احسن انداز سے اٹھا لیں‘ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ تبدیلی نہ لا سکیں۔ ان دنوں جس طرح 62 اور 63 دفعات محض زیب داستان کیلئے زیر بحث ہیں‘ ان دفعات رفاہی اور فلاحی کاموں میں موثر بنانے اور صاف ستھری قیادت کو سامنے لانے کیلئے علمائے کرام شہادت حق سے کام لیں۔
جہاں تک سیاستدانوں کی بات ہے‘ اب دائیں بازو اور بائیں بازو میں کوئی فرق نہیں بلکہ دایاں دکھا کر بایاں اور بایاں دکھا کر دایاں استعمال ہوتا ہے شاہ محمود قریشی‘ رانا ثناءاللہ‘ پرویز رشید‘ پرویز الٰہی‘ حنیف عباسی‘ ممتاز بھٹو‘ آفتاب احمد خان شیر پا¶‘ فیصل صالح حیات اور طلال بگٹی جسے سیاستدانوں کو ”دائیں“ میں گردانیں گے یا ”بائیں“ میں؟ کون سی سوئی بروئے کار لائیں گے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ‘ پی پی پی اور ق لیگ کے متعدد سیاستدانوں کا ہر حال میں کرسی کا متلاشی ہے‘ جیسے بھی اور جدھرسے بھی ملے!! ایسے سیاستدانوں سے تبدیلی یا انقلاب کی امید رکھنا محض افسانہ پسندی ہے حقیقت پسندی نہیں! سیاستدانوں میں عرصہ دراز سے وڈیروں‘ چودھریوں‘ جاگیرداروں‘ صنعتکاروں ہی کی کھیپ چل رہی ہے۔ لوٹا ازم کی بیماری میں مبتلا سیاستدان‘ مفاد پرست اور کرپٹ عناصر جمہوریت پر آسیب کا سایہ ہیں۔ کبھی سیاستدانوں کی اچھی کھیپ جو طالب علموں سے آجایا کرتی تھی‘ اس کو بھی سیاستدانوں نے ایک خاص انداز سے روک دیا ہے وکلاءسے بھی اس طرح کے نمائندے اوپر نہیں آئے جس طرح کے آنے چاہئے تھے۔ پھر تبدیلی کس طرح آئے؟
تبدیلی کے خواب اس طرح شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے کہ ایک بارڈر پر ایک طبقہ اسٹیبلشمنٹ کا سٹریٹجک اثاثہ ہو۔ دوسرے بارڈر پر دوسرا‘ سینٹر میں تیسرا‘ صوبوں میں چوتھا‘ پھر جب یہ آمنے سامنے آئیں تو سب میں تصادم ہو پس ان ”اثاثوں“ سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا اور نظریہ پاکستان کو قومی اثاثہ بنانا ہو گا۔ جب تک فوج‘ سیاستدان اور بیورو کریٹس سب مل کر نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کو قومی اور قیمتی اثاثہ نہیں سمجھیں گے اور پاکستان کے مطلب کو لوٹ کھسوٹ اور باپ کی جاگیر کے بجائے لاالہ الاللہ نہیں سمجھیں گے تب تک ترقی‘ خوشحالی‘ کرپشن فری معاشرہ‘ اسلام کا قلعہ اور جمہوری پاکستان ممکن نہیں! کرپشن اور جھوٹ کی دہشت گردی کے علمبردار وطن دشمن دہشت گردوں سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

مزیدخبریں