حیرت اس بات پرہوئی جب سینیٹرفرحت اللہ بابر چیرمین پارلیمانی کمیشن برائے تشکیل صوبہ جات نے یہ انکشاف کیا کہ بہاول پورتوکبھی صوبہ تھاہی نہیں اس لئے بحالی صوبہ بہاول پورکاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا کاش انہیں تاریخی حقائق جھٹلانے سے پہلے تاریخ کی ور ق گردانی کی سعادت نصیب ہوجاتی تواتنی بڑی حقیقت کومسخ کرنے کی غلطی نہ کرنی پڑتی میں یہ بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں کہ ان پر کسی بڑی شخصیت کادباﺅ تھا کیونکہ دورہ بہاولپور کے دوران صحافیوں سے صدرمملکت آصف علی زرداری نے یہ پوچھا کہ صوبہ بہاول پور خودکفیل تھا انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ بہاول پورصوبہ تھا؟جوابایہ بتایاگیا کہ بہاول پور وہ واحد صوبہ تھا جوون یونٹ میں شامل کئے جانے پر سرپلس تھا اسکے مقابلے میں سند ھ پنجاب اورسرحد تینوں صوبے ڈیفیسٹ تھے جبکہ بلوچستان کی صوبائی حیثیت ہی نہ تھی بلکہ اسکے انتظامات فیڈرل گورنمنٹ کے تحت تھے۔
یہ بات کسی پڑھے لکھے ان پڑھ نے نہیں بلکہ اس دور کے اسٹیٹ منسٹرریاستی امورڈاکٹرمحمودالحسن جونہ صرف ماہرتعلیم ہی نہیں بلکہ اس وقت کے بہت بڑے سکالرتھے نے یکم مئی 1951ءکی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بہاول پورکوصوبائی درجہ حاصل ہوچکاہے اب اسے ریاست نہ کہاجائے اس کی پریس رپورٹنگ قومی اخبارات نے کی بہاول پورکی صوبائی حیثیت کی بناءپر چوہدری عبدالسلام اور سید احمدنوازشاہ گردیزی قانون ساز اسمبلی کیلئے چنے گئے تاریخی حقیقت تویہ ہے کہ صوبہ بہاول پور کے مقابلے میں کسی دوسری ریاست میں انتخابات ہوئے ہی نہیں تھے انکے عوام صوبائی درجہ حاصل کرنے کیلئے کیونکرکہہ سکتے ہیں بہاول پورصوبہ سے مخدوم زادہ سیدحسن محمود انتخاب جیت کر وزیراعلی بنے جبکہ چوہدری فرزندعلی سپیکرکاانتخاب جیتے انکے ساتھ چوہدری بشیراحمدچیمہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے صوبائی وزراءنے بھی حلف اٹھایا ۔بہاول پورصوبہ کی منتخب اسمبلی نے صوبائی بجٹ منظورکئے اگر یہ ریاست ہوتی توسرپلس بجٹ کی رقم نواب صاحب کی ملکیت ہوتی یہ رقم ون یونٹ گورنمنٹ نہ لے جاتی اس سے ثابت یہ ہورہاہے کہ بہاول پورصوبہ کے مالیاتی امور میں نواب بہاول پور کاکوئی عمل دخل نہیں تھا بہاول پورکااپناہائی کورٹ اور ریونیوبورڈ تھا کونساادارہ جسے صوبے میں ہوناچاہیے وہ نہیں تھا؟یہ وہ دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ بہاول پورصوبہ تھا۔
جب تک بہاول پورریاست رہی تمام اختیارات نواب آف بہاول پور سرصادق محمدخان عباسی پنجم کے پاس رہے جب ریاست بہاول پور صوبائی درجہ حاصل کرگئی تونواب صاحب کے پاس نوابی اختیارات ختم ہوگئے وہ صرف آئینی حدتک گورنرکے برابر رہے انکا ماہانہ وظیفہ مقررہوگیا یہ سلسلہ موجودہ نواب صلاح الدین عباسی تک محدودکردیاگیا تھا نواب صلاح الدین عباسی کے بعد کوئی نواب نہیں کہلائے گا بہاول پورمیں عوامی قوت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ نواب صلاح الدین عباسی ایک آبادکارگھرانے کے فردچوہدری طارق بشیرچیمہ سے ضلعی ناظم کاانتخاب ہارگئے اس سے ثابت یہ ہورہاہے کہ بہاول پور کی عوام تمام تعصبات سے پاک صاف ہیں اوراونچ نیچ کی پرواہ نہیں کرتے ۔نواب صلاح الدین عباسی کی شرافت کی بھی داددینی پڑتی ہے جنہوں نے ضلعی نظامت کے انتخاب میں شکست کومدبرانہ اندازسے قبول کیا کسی سے اپنی شکست کابدلہ نہ لیااسکے برعکس سرداری نظام کے خلاف ڈیرہ غازی خان شہر سے جماعت اسلامی ڈاکٹرنذیرقومی اسمبلی کاانتخاب تو جیت گئے لیکن اسکی قیمت زندگی کی صورت میں اداکرنی پڑی جب نواب صلاح الدین عباسی نے اپنے مرتبے کے مطابق بحالی صوبہ بہاول پور کی تحریک کی قیادت کی تو منڈی صادق گنج سے لیکر صادق آباد تک کی عوام نے انکی قیادت کو دل وجان سے قبول کیا ۔ بہاول پورمیں نمائندگی کاحق 62 فیصد عوام کے پاس ہے اسکے برعکس دریائے ستلج کے پارنمائندگی کاحق مخدوموں جاگیرداروں سرداروں اورجھوٹے نوابوں کے پاس ہے اگرغور سے دیکھاجائے توسابق صوبہ بہاو ل پور تمام تعصبات سے پاک ہے سرائیکی پنجابی اوراردوبولنے والی عوام دراصل رشتوں ناتوں کے بندھن میں گوندھی جاچکی ہیں یقینا اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ بہاول پورکی سرزمین کے باسیوں نے نہ تو خوفناک سکھ راج دیکھا ہے اورنہ ہی انگریز کی عملداری دیکھی ہے بہاول پوراسلامی ریاست تھی جوامن کاگہوارہ تھی یہ وہ رویے ہیں جنکی وجہ سے سابق بہاول پور صوبہ کی عوام کسی دوسرے علاقہ سے الحاق قبول نہیں کرتی ۔
یحییٰ خان نے صرف ملک نہیں توڑا صوبہ بہاول پور کوپنجاب میں شامل کرکے پنجاب کی آبادی کے اژدھاکوباقی تینوں صوبوں کیلئے ناقابل قبول بناکر بقیہ پاکستان کومسائلستان بنادیا یحییٰ خان نے جب سابق صوبہ بہاول پور کومارشل لاءآڈرکے تحت پنجاب میں شامل کیاتو بہاول پوری عوام سراپا احتجاج بن گئی نہتی عوام کے پرامن جلوس پر گولی چلائی گئی دوشہری شہید ہوئے سینکڑوں زخمی ہوئے سینکڑوں پابندسلاسل کرکے ملک کی مختلف جیلوں میں سزاکاٹنے پرمجبورکردیئے گئے یہ پرامن احتجاج پچھلے بیالیس سال سے آج تک جاری ہے عوام آج تک کسی کی عمل داری کوقبول نہیں کرسکی جوناانصافیاں پنجاب اور سرائیکی وسیب کے حکمرانوں نے آج تک کی ہیں اسکی داستان بڑی دردناک اورناانصافیوں سے بھرپورہے ون یونٹ کے قیام سے لیکر آج تک سابق صوبہ بہاو ل پور کے تین سو تیس میل کی پٹی پرتین اضلاع تھے آج بھی تین ہی ہیں پنجاب کاکون سا ضلع ہے جس سے مزیدتین اضلاع نہیں بنائے گئے ملتان اور ڈیرہ غازی ایک سے چار اضلاع میں تبدیل ہوچکے ہے جب نیاضلع بنتاہے تو سب سے زیادہ سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ بزنس میںہوتی ہے ہرضلع میں سالانہ 100 میل سڑکیں بنتی ہیں 20 گاﺅں کوبجلی فراہم کی جاتی ہے ایک ضلعی ہسپتال ¾ لڑکوںاور لڑکیوں کے ڈگری کالجز قومی اورصوبائی دفاترکاقیام ¾ٹیکس فری زون کے ساتھ انڈسٹریل اسٹیٹس کاقیام‘ اس اربنائزیشن سے نئے ضلع کی عوام راتوں رات غریب سے امیرتربن جاتی ہے اسکاثبوت بہاول پورمیں صرف ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال قائم ہونے سے ہے جسکی ملحقہ زمین کی قیمت ایک کروڑ روپے فی مرلہ کے لگ بھگ ہوگئی ہے اگرسابق بہاول پورکے تین اضلاع میں سے بھی نومزیداضلاع بنائے جاتے تواندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ پراپرٹی کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتیں۔ راقم الحروف نے اس بات کی نشاندہی صدرمملکت آصف علی زرداری کے دورہ بہاول پورپرکی کہ ایک اژدھا ہماری جائیدادوں کولوٹنے کیلئے چل پڑاہے آپ ہمیں اس سے کیسے بچائیں گے ؟ ہمارے پوزیشن حاصل کرنے والے طلباءوطالبات میڈیسن انجینئرنگ اوردوسرے ٹیکنیکل اداروں میں داخلے حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ایسی صورت میں کتنے والدین ہیں جواپنے بچوں کو پرائیوٹ کالجزمیں میڈیسن انجینرنگ اوردوسرے ٹیکنیکل اداروں میں تعلیم دلانے کے قابل ہیں اگربورڈ کے امتحانات کے نتائج قبول نہیں ہیں تو بورڈ توڑکیوں نہیں دیئے جاتے ان حالات نے بہاول پور میں جہالت اورغربت کی انتہاءتک پہنچادیا ہے ۔
بہاول پوری عوام اور نواب سرصادق محمدخان عباسی کی پاکستان پرمہربانیوں اور فیاضیوں کی داستان کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کیااس سے بڑی قربانی کوئی اورہوسکتی ہے بھارتی ہندو لیڈرشپ نے نواب آف بہاول پور اوراسکی عوام پر یہ ظاہرکردیاتھا کہ پاکستان میں شمولیت پردریائے ستلج اوربیاس کے پانیوں سے آپکومحروم کردیاجائیگا کیاہندولیڈرشپ نے دریائے ستلج اوربیاس کے پانیوں کوخرید کربہاول پور کی عوام کو سزا نہیں دیدی گذشتہ باون سال سے دریائے ستلج خشک پڑا ہے ایوب خان نے تاریخ انسانی کاانوکھا معاہدہ کیاجس سے انسانی بنیادی حقوق توکجا مخلوق خدا کے بنیادی حقوق تک سلب کردیئے ہیں جسکی دنیا کاکوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتا دریائے ستلج کاپانی زہرآلودہونے لگا ہے عوام ہیپاٹائٹس سی گردے پیٹ اور جلد کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں دریائے ستلج اوربیاس کے خشک ہونے سے پہلے دریائے ہاکڑہ صدیوں پہلے خشک ہواتھا اسکی لہلاتی فصلوں پرمشتمل سرزمین ریت کاکفن اوڑھے ابدی نیندسوچکی ہے اب وہاں ویرانی کے سواءکچھ نہیں دریا تہذیبوں کی زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں اگرپاکستانی حکمرانوں اورسابق صوبہ بہاول پور کے منتخب ہونے والے نمائندوں کوشعورہوتا تووہ دریاکی ری چارجنگ کیلئے نہرکی تعمیر کیلئے ریکوزیشن اسمبلیوں میں جمع کراتے لیکن دونوں نے جہالت کاثبوت دیکر بہاول پورکی عوام کومشکل میں ڈال دیاہے اب اسکے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہاکہ بہاو ل پوری عوام اپنا سابقہ صوبہ بحال کراکر دریائے ستلج کی ری چارجنگ کیلئے جدوجہد کاآغاز کریں ۔