”مِنہاج اُلقُرآن“ پر خیانت کا مقدمہ !

11فروری کو، سُپریم کورٹ میں، الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے، علّامہ طاہراُلقادری کی، درخواست کی سماعت کے دوران، جسٹس عظمت سعید شیخ نے، جب اُن سے پوچھا.... ”علّامہ صاحب! آپ کینیڈا کب واپس جا رہے ہیں؟“ تو علّامہ صاحب نے کہا تھا کہ.... ”مَیں یہیں ہوں، کہیں نہیں جا رہا!“ ٹھیک 15دِن بعد 26 فروری کو، علّامہ القادری طِبّی معائنے کے لئے، کینیڈا چلے گئے۔ 11مارچ کو واپس آنے کا اعلان کرکے۔ علّامہ صاحب کے ساتھ، اُن کے دونوں بیٹے اور دیگر اہلِ خانہ بھی گئے ہیں یا نہیں؟۔ یہ بھی نہیں بتایا گیاکہ ”قائدِ انقلاب“ کی غیر موجودگی میں ”قائم مقام قائدِ انقلاب“ کون ہو گا؟ یا اِس دوران ” انقلاب“ معطل رہے گا؟ اس بات کا عِلم نہیں ہو سکا کہ علّامہ صاحب کا طِبّی معائنہ، جسمانی ہو گا یا دماغی؟ علّامہ صاحب کے۔”40 لاکھ“ عقیدت مندوں کو بتایا جائے! علّامہ القادری نے اپنی، پاکستان عوامی تحریک کا پارلیمانی بورڈ بنا دیا ہے اور انتخابات میں حِصّہ لینے والے امیدواروں سے، درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں اور یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ ”اگر انتخابات ”Corruption Free“ (دھاندلی سے پاک) ہُوئے تو، عوامی تحریک اُن میں حِصّہ لے گی، ورنہ نہیں؟“ علّامہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قبل از وقت، کیسے پتہ چلا لیں گے کہ انتخابات، دھاندلی سے پاک ہوں گے یا نہیں؟ کیا کینیڈا کی کَسی ”جین ڈِکسن“ سے معلوم کریں گے یا خود استخارہ کریں گے؟ لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل، علّامہ القادری نے لاہور میں، اعلان کِیا تھا کہ ”لانگ مارچ حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار سے شروع ہو گا اور اسلام آباد جا کر، حضرت بری امام ؒ کے مزار پر ختم ہو گا“ حکومتِ پنجاب نے، لانگ مارچ کا Route تبدیل کر دیا تو، لانگ مارچ داتا دربار سے شروع نہیں ہو سکا، لیکن علّامہ طاہر القادری اپنے لانگ مارچ کو حضرت بری امامؒ مزار پر کیوں نہیں لے گئے؟  علّامہ طاہرالقادری کی ذاتی طور پر، حضرت داتا گنج بخشؒ اور حضرت بری امامؒ کے مزاروں پر حاضری دینے کی خبر نہیں آئی۔ وہ بھیس بدل کر گئے ہوں تو، الگ بات ہے۔ اب تو ایک ہی طریقہ ہے کہ علّامہ القادری، دوبارہ پاکستان واپس آنے سے پہلے، قادریہ سِلسلے کے بانی، حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر، بغداد جا کر حاضری دیں۔ اور وہاں مراقبہ کریں۔ شاید مراقبے کے دوران انہیں پتہ چل جائے کہ پاکستان میں انتخابات دھاندلی سے پاک ہوں گے یا نہیں؟ ایک احتیاط ضروری ہے کہ علّامہ صاحب، اپنے دورہ بغداد کی، شیخ عبدالقادر جیلانی (گیلانی) کے فرزند، سابق وزیرِاعظم، یوسف رضا گیلانی کو، کانوںکان خبر نہ ہونے دیں، (جنہوں نے لانگ مارچ کے دوران کہا تھا کہ طاہرالقادری اندھیرے میں کالی بِلّی تلاش کر رہے ہیں) ورنہ علّامہ القادری کے لئے۔ ”پِیرانِ پِیر کو منانا مشکل ہو جائے گا۔ بابا بُلّھے شاہؒ القادری نے تو اپنے پِیر، شاہ عنایتؒ القادری کے سامنے، ناچ کر انہیں منا لیا تھا۔ طاہرالقادری کیا کریں گے۔ اُن کے لئے تو ”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا“ والی بات ہو گی۔علّامہ القادری کی، حضرت غوثِ اعظمؒ کے مزار پر حاضری، اِس لئے بھی ضروری ہو گئی ہے کہ مِصر کی جامعہ الازہر کے مذہبی سکالرز نے، اُن کی ”شیخ اُلاِسلامی“ کو چیلنج کر دِیا ہے اور جامعہ الازہر کے گرینڈ امام شیخ الطیب کے نام اپنی درخواست میں لِکھا ہے کہ.... ”طاہرالقادری جامعہ الازہر کا ٹائیٹل ”شیخ اُلاِسلام“ کو اپنے نام کا حِصّہ بنا کر، سیاسی مقاصد حاصل اور لوگوں کو بلیک میل کر رہا ہے۔ آپ فوراً مداخلت کریں!“ جامعہ الازہر کے گرینڈ امام علّامہ طاہر القادری کو ”شیخ اُلاِسلام“ کا خطاب استعمال کرنے سے منع کر سکتے ہیں یا نہیں؟۔ مجھے نہیں معلوم، کیونکہ علّامہ القادری اب کینیڈا کے شہری ہیں اور پاکستان میں محض ایک ووٹر لیکن ”قائدِ انقلاب“ جامعہ الازہر کے گرینڈ امام صاحب کو شاید ملکہ کینیڈا الزبتھ دوم سے رابطہ قائم کرنا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ”بین المذاہب ہم آہنگی“ کے لئے خدمات انجام دینے پر، علامہ القادری کو، خُود ملکہ معظمہ نے ”شَیخ اُلاِسلام“ کے خطاب سے نوازا ہو۔ اپنی کینیڈین شہریت کے باعث، سپریم کورٹ سے، الیکشن کمشن کو تحلیل کرانے کی درخواست مسترد کرانے کے بعد، علّامہ القادری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، اُسے 75 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں سے، سپریم کورٹ کی زیادتی قرار دیا تھا، لیکن افسوس کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد وکلاءکی تنظیم Association of Pakistan Lawyers (A.P.L) نے علامہ القادری کے ”خلوص“ کی قدر نہیں کی اور ان کی سربراہی میں چل رہی این جی او ”منہاج اُلقرآن“ پر ”خیانت کا مقدمہ“ دائر کر دیا ہے۔ ایک نیوز چینل پر بحث میں حِصّہ لیتے ہوئے، سابق جج سپریم کورٹ، جناب طارق محمود نے بتایا تھا کہ ”منہاج اُلقرآن کے 11 ڈائریکٹرز ہیں۔ 8 علامہ طاہر القادری اور اُن کے خاندان کے لوگ اور باقی 3 علامہ صاحب کے نامزد کردہ“ A.P.L کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے، برطانیہ میں رفاہی اداروں کی نگرانی کے لئے قائم کئے گئے بورڈ (Charity Commission) کو جو درخواست دی ہے کہ، اُس میں علامہ القادری (برطانوی حکومت سے امداد لینے والے) خیراتی اداروں منہاج اُلقرآن انٹرنیشنل اور منہاج اُلقرآن ویلفئر انٹرنیشنل کے خلاف شکایت کی گئی ہے، کہ ان دونوں تنظیموں نے، خیراتی کاموں کے لئے، وصول کی گئی رقم میں سے، 69 ہزار ڈالر (6کروڑ 90 لاکھ روپے) سے علّامہ القادری کے لئے بلٹ پروف لینڈ کروزر خریدی، جو امانت میں خیانت ہے“۔ علامہ القادری کینیڈا میں رہ کر اپنی Fitness پر ہی توجہ دیں گے تو برطانیہ میں منہاج القرآن کے منتظمین کی پریشانی کیسے دُور ہو گی؟ شاعر نے کہا تھا.... 
”اُدھر بالوں میں ، کنگھی ہو رہی ہے، خَم نِکلتا ہے۔۔۔۔ اِدھر ، رگ رگ سے، کھِچ کھِچ کر، ہمارا دَم نِکلتا ہے“
علامہ القادری کی ”تندرستی“ اور برطانیہ میں اُن کے کارندوں کے”دَم“ کا اگر بیک وقت خیال رکھا جائے تو ”انقلاب“ تک پہنچنے کے لئے علامہ القادری کا متعیّن کردہ، منہاج اُلقرآن (قرآن کا راستہ) آسان ہو جائے گا۔ کیا علامہ القادری ”منہاج اُلقرآن“ کے خلاف ”خیانت“ کے مقدمے کی صفائی میں خود برطانیہ تشریف لے جا کر Charity Commission کے روبرُو، اصالتاً پیش ہوں گے یا وکالتاً؟ شاعرِ سیاست نے کسی اور موقع پر کہا تھا.... 
”امانت میں، خیانت کر رہا ہوں۔۔۔ بظاہر زندہ ہُوں، پر، مر رہا ہوں
مجھے، اپنوں نے، دھُتکارا ہمیشہ!۔۔۔۔ تبھی، غیروں کی، چِلمیں بھر رہا ہوں“ 

ای پیپر دی نیشن