لندن (خصوصی رپورٹ/ خالد ایچ لودھی) بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ جو کہ آبنائے ہرمز سے صرف 180 میل کے فاصلے پر واقع ہے اسکا شمار دنیا کے انتہائی اہم سمندری راستوں میں ہوتا ہے، اقوام متحدہ کی تیل کی تجارت کا 50 فیصد سے زائد حصہ اسی سمندری پٹی سے گزرتا ہے۔ بھارت گوادر میں چین کی موجودگی کو اپنے لئے مسلسل خطرہ قرار دے رہا ہے۔ بھارت نے اس ضمن میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ڈپلومیسی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی دفتر خارجہ کے اعلیٰ افسران امریکہ اور برطانیہ میں سفارتی مشیروں کے ساتھ ہاٹ لائن پر مسلسل رابطوں میں ہیں۔ 2002ءمیں جب پاکستان نے چین کے تعاون سے گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا تو اسی دوران چین کے انجینئروں کے ایک گروپ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ساتھ ساتھ بعض دیگر مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت میں بلوچستان کے مختلف شہروں میں فرقہ واریت پھیلانے اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث عناصر کو باقاعدہ طور پر تربیت دیکر افغانستان کے راستے بلوچستان بھیجا جاتا ہے۔ بھارت کے دفاعی مشیروں کے مطابق گوادر بندرگاہ پر چین کی موجودگی کا مطلب توانائی کی عالمی گزرگاہ پر چین اور پاکستان کا کنٹرول ہے۔ اب جبکہ 2014ءسے افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلاءشروع ہو رہا ہے اور امریکہ کی گرفت اس خطے میں محدود اور کم ہونے جا رہی ہے، امریکہ ہر قیمت پر خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کروانا چاہتا ہے تاکہ چین کو خطے میں پاکستان کے ساتھ مل کر اپنی قوت بڑھانے کا موقعہ نہ مل سکے اور چین کو عالمی سطح پر اقتصادی اور تجارتی میدان میں ابھرنے سے روکا جا سکے۔ پاکستان نے گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول چین کو دیکر مغربی طاقتوں کو حیران کر دیا ہے۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے اپنی ڈپلومیسی میں پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے۔ پاکستان، چین اور ایران کے تعلقات پر بھی بھارتی دفتر خارجہ نے مغربی ممالک کے سفارتی مشیروں کو اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا ہے اور اس ضمن میں چین اور ایران میں بھارتی سفیروں کو صلاح مشورے کیلئے بھارت طلب کیا گیا ہے۔