لاہور (شہزادہ خالد) غازی علم الدین شہید نے 6 اپریل 1929ءکو ہندو گستاخ رسول کو چھری کے وار کرکے واصل جہنم کیا۔ 6 اپریل 1929ءکو دن 2 بجے تھانہ کچہری ضلع لاہور میں کرار ناتھ ولد برج لعل ذات برہمن جو جہنمی مہاشہ راجپال کی دکان پر ملازم تھا کی مدعیت میں زیر دفعہ 302 تعزیرات ہند مقدمہ نمبر 60/29 درج ہوا۔ جس کے تحت بعدازاں عاشق رسول غازی علم دین شہید کو سزائے موت دے دی گئی۔ اس وقت کی عدالت کے فیصلے کے بارے میں عدلیہ بچاﺅ کمیٹی کی طرف سے 22 اپریل 2011ءکو لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ جس کی آئندہ سماعت 14مارچ کو ہو گی۔ امتیاز راشد قریشی نے اپنی آئینی رٹ پٹیشن جو کہ بیرسٹر ڈاکٹر سید فاروق حسن اور شہباز رشید قریشی کی طرف سے دائر کی گئی ہے میں استدعا کی گئی ہے کہ موجودہ دور کی عدالت عالیہ پر یہ جوڈیشل فرض ہے کہ وہ سابق فیصلے کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نظرثانی کے اصول کے توسط سے کالعدم قرار دے اور مزید یہ کہ وہ عاشق رسول غازی علم الدین شہیدؒ کو ان تمام اعزازات سے نوازے جو بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے مقدمات میں مسلمہ حقیقت کے حامل ہیں۔ اس مقدمہ میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ بطور ڈیفنس کونسل پیش ہوئے اور ان کے شاندار ریکارڈ کے مطابق یہ واحد کیس ہے جس میں انہیں ناکامی ہوئی اس کیس کے فیصلہ کے 80 سال بعد بیرسٹر ڈاکٹر سید فاروق حسن نے یہ بات کی ہے کہ اس کیس میں بظاہر Mr.justice johnston and Mr.justice Broadway نے پالیسی کے نتیجے میں حکم صادر فرمایا تھا کیونکہ محض ایک صفحے پر محیط فیصلے میں انگریز جج نے جناحؒ صاحب کی پرمغز دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا اور اس مسئلہ پر سرے سے ہی کوئی حکم صادر نہیں کیا یہ مقدمہ درحقیقت ان بے پناہ طاقت کے جذبات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوا تھا اور جس میں اشتعال کا عنصر موجود تھا اور یہ وجہ قتل تھی اور قانون میں یہ چیز مسلمہ طور پر موجود ہے کہ ان حالات میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا اس مقدمہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جناحؒ صاحب کی بحث قانونی طور پر صحیح تھی اور عدلیہ کا فیصلہ درست نہ تھا۔ رٹ کے آخر میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عالیہ اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کرے کہ 1929ءکا فیصلہ غلط تھا اور مزید یہ کہ عاشق رسول غازی علم الدین شہیدؒ کو باعزت بری کرتے ہوئے یہ حکم صادر کرے اس کو ازسرنو سرکاری جنازہ کا اہتمام کرے جس طرح کے آئرلینڈ میں روجر کیس منٹ کے کیس میں ہوا تھا اور اس کے بعد از موت (Postusmouse) ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
غازی علم الدین