سپریم کورٹ نے مشرف حملہ کیس کے ملزمان کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوج کے قواعدوضوابط پارلیمنٹ کے بنائے قانون سے بالا تر نہیں۔

دسمبر دو ہزار تین میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔گرفتار شدہ ملزمان رانا نوید اور عامر سہیل کو فوجی عدالت نے پہلے عمر قید کی سزا سنائی جسے بعد ازاں سزائے موت میں تبدیل کردیا گیا۔فوجی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ملزمان نے سپریم کورٹ کی طرف سے سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی جس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل ایڈوکیٹ مجیب الرحمن یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ فوجی عدالت نے عمر قید کی سزا سنانے کے بعد اپیل میں اسے سزائے موت میں جائز طریقے سے بدلا۔وزارت دفاع کے وکیل کا موقف تھا کہ ملزمان نے عمر قید کے خلاف اپیل دائر کی تھی جبکہ ملزمان کے وکیل ایڈوکیٹ حشمت حبیب کا موقف تھا کہ ملزمان کی اپیل دائر کیے بغیر ہی فوج کے اپیلٹ ٹریبونل نے عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا۔عدالت کے بار باراستفسارکے باوجود وزارت دفاع کے وکیل ملزمان کی طرف سے اپیل دائر ہونے کی تاریخ ریکارڈ سے ثابت نہ کر سکے۔ وزارت دفاع کے وکیل نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ملزمان کو عمر قید سے متعلق پہلے فیصلے سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھااور اسی دوران فوج کے ٹریبونل نےان کی سزا ،سزائے موت میں بدل دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ملزم کو فیصلے سے آگاہ کیے بغیر اس کی طرف سے اپیل کی توقع کرنا آئین کے منافی ہے ۔ فوج کے قوائد و ضوابط پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون سے بالاتر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے بعد کسی بھی ملزم کو اس کے متعلق فیصلے سے آگاہ کرنا ضروری ہے،جس کے بعد چالیس دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔کیس کی سماعت کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ای پیپر دی نیشن