فرزانہ چودھری
گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں جاری توانائی کے بحران نے ہماری صنعتی ترقی کے عمل کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ایک طرف ملک معاشی زبوں حالی کا شکار ہوا ہے تو دوسری جانب نئی صنعتوں کا قیام بھی کم و بیش رک چکا ہے۔ توانائی کے بحران سے سب سے زیادہ صنعتیں صوبہ پنجاب میں متاثر ہوئی ہیں۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے اگرچہ فی الوقت صورتحال میں خرابی کا عمل قدرے سُست ہوا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو توانائی کے بحران سے مستقل نجات دلانے کیلئے مختصر اور طویل مدت کی منصوبہ بندی کی جائے اور اس کو جلد از جلد عملی شکل بھی دی جائے۔پاکستان کے صنعتی شعبے میں پنجاب کا حصہ 70 فیصد کے قریب ہے اور ملک کی زیادہ تر کپاس بھی پنجاب میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہاں قائم صنعتوں کو ان کی ضروریات کے مطابق بجلی اور گیس فراہم نہیں کی جاتی رہی۔
جہاں تک ٹیکسٹائل کی صنعت کا تعلق ہے تو پاکستان کی مجموعی صنعتی پیداوار میں اس شعبے کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا پیداواری شعبہ قرار دیا جاتا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے کے باعث پاکستانی مصنوعات اب ڈیوٹی کے بغیر یورپی منڈیوں میں فروخت کی جا سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات میں مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر اضافے کا امکان ہے اور پاکستان کا ٹیکسٹائل کا شعبہ ہی اس اضافے کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اس بہترین موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے تو اسکے نتیجے میں ہر برس ملک میں 10 لاکھ سے زائد روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور بیروزگاری پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ہمارے ہاں بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں اور نہ صرف گزشتہ بلکہ موجودہ حکومت بھی بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی خواہش رکھتی ہے اگرچہ تاحال یہ خواہش حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی۔ بھارت نے آج تک پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں آزادانہ رسائی کی اجازت نہیں دی اور پاکستانی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کر رکھے ہیں۔ اس کے برعکس چند روز قبل ایسی خبریں سننے میں آئیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ حکومتِ پاکستان بھارتی مصنوعات کی پاکستانی منڈی میں فروخت کو یقینی بنانے کیلئے بعض رعائتیں دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کیلئے ناقابلِ برداشت نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
پاکستان میں توانائی کے بحران کے باعث ملک کی صنعتی پیداوار 20 فیصد کم رہتی ہیں۔ پاکستانی صنعتی شعبے کو بجلی کا ایک یونٹ 15 روپے میں ملتا ہے جبکہ بھارت میں ایک یونٹ کی قیمت محض 9 سینٹس ہے۔ پاکستان میں رائج شرح سود بھارت کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کار یہاں ّنے سے کتراتے ہیں جبکہ بھارت میں صورتحال اس کے بر عکس ہے۔
مندرجہ بالا تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یہ طے ہے کہ بھارت کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی پاکستانی مارکیٹ میںآزادانہ فروخت کی اجازت پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مترادف ہو گی۔ اس حوالے سے حکومت کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ہر حوالے سے پاکستانی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا کیونکہ بھارت عالمی منڈی میں ہمارا ایک بہت بڑا حریف ہے۔
ہمیں عالمی منڈی میں تو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہونے کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے لیکن ملک کے اندر بھی پیداواری لاگت کے حوالے عدم توازن کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ پنجاب ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایس ایم تنویر نے بتایا،’’ پنجاب کی 90فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت گیس اور بجلی پر چل رہی ہے باقی 10فیصد گیس یا بجلی نہ ملنے کی وجہ سے بند ہو چکی ہے۔ جو ٹیکسٹائل ملز چل رہی ہیں ان کو بھی صرف 25فیصد گیس مل رہی ہے۔ یعنی 6گھنٹہ گیس اور 18گھنٹہ بجلی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جارہی ہے۔ پنجاب میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس کا فی یونٹ 7روپے اور بجلی کا 15روپے میں ملتا ہے۔ اگر ان دونوں کا اوسط نکالیں تو وہ ساڑھے گیارہ روپے فی یونٹ ہو جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کو 24گھنٹہ گیس مل رہی ہے اس لئے ان کے فی یونٹ کی قیمت 7روپے ہے۔ پنجاب کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں توانائی کی کھپت 1500سو میگاواٹ ہے جبکہ سندھ میں بھی 1500میگاواٹ ہی ہے۔ اب اگر دونوں صوبوں کا فی یونٹ قیمت کا فرق نکالیں تو پینجاب کی صنعت کو 72ارب روپے سالانہ اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اتنے بڑے فرق کی وجہ سے پنجاب کی انڈسٹری آنے والے دو تین سالوں میں بند ہو جائے گی۔ یہ ایک بہت بڑا بحران ہے۔ ہاں اب GSPکی وجہ سے دو ڈھائی بلین ڈالر کی ایکسپورٹ بڑھے گی لیکن اس سے فائدہ اسی صورت اُٹھایا جا سکتا ہے جب پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے عالمی مارکیٹ میں زیادہ مصنوعات فروخت کرنا ممکن ہو سکے۔ موجودہ حکومت توانائی پیدا کرنے کے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے کیونکہ توانائی وافر ہو گی تو یقیناً ٹیکسٹائل کی صنعت پھلے پھولے گی اور پیداواری لاگت پر بھی مثبت اثر سامنے آئے گا۔
فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے چیئرمین سٹیڈنگ کمیٹی برائے گیس اور قائم مقام چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن، رضوان اشرف، نے گیس بحران سے متاثرہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’کپاس کی پیداوار کے شعبے میں پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ عالمی سطح پر ٹیکسٹائل کے شعبے کا پیداواری حجم 18کھرب ڈالر ہے جبکہ اس میدان میںپاکستان کی مجموعی برامدات کا حجم 12ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یعنی دنیا کے مجموعی ٹیکسٹائل ٹریڈ میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے ہمارے ہاں ویلیو ایڈیشن کا انفراسٹرکچر بہت محدود ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب توانائی کا بحران ہے۔ اگر توانائی کا بحران درپیش نہ ہو تو ہماری ٹیکسٹائل کے شعبے میں برامدات میں 28 گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہماری مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 30ارب ڈالر ہے۔ ہم اس وقت گیس اور بجلی کے شدید ترین بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہر قسم کی صنعت بالعموم اور ٹیکسٹائل کی صنعت بالخصوص بہت بْری طرح متاثر ہو ئی ہے۔ اگر ہم پچھلے سال کا جائزہ لیں تو ہمیں سال کے 365دنوں میں صرف 165دن گیس میسر رہی ۔ ٹیکسٹائل ملز کو پروڈکشن کے لئے متبادل ایندھن استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور عالمی منڈی میں ہماری مصنوعات کی قیمت، پیداواری اخراجات میں اضافے کے سبب، زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں آرڈرز نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پروڈکشن وقت پر تیار ہی نہیں ہو پاتی جس سے ہماری شپمنٹس بروقت نہیں پہنچتی۔ یعنی ایسٹر اور کرسمس پر ہماری پروڈکشن بروقت ایکسپورٹ نہیں ہو پاتی کیونکہ ہمارے یہاں سردیوں میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بْری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ ہم 12،13ملین گانٹھ کپاس سالانہ پیدا کرتے ہیں۔ ہماری کپاس، خام مال کی صورت، دو ڈالر فی کلو گرام کے حساب سے سے بیرونِ ملک فروخت ہوتی ہے۔ اگر ہم کپاس کی بجائے کورا کپڑا بناکر برامد کریں تو ہمیں تین ڈالر فی کلو گرام ملتا ہے اور اگرہم اس کی پروسیسنگ کریں، اس کی ڈائنگ اور پرنٹنگ کرکے برامد کریں تو اس کی قیمت 12ڈالر فی کلو گرام ہوتی ہے۔ اب چونکہ ہمارے ہاں گیس اور بجلی پوری نہیں ہوتی تو اس لئے ڈائنگ اور پرنٹنگ نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے 9ڈالر فی کلو گرام ایکسپورٹ کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے 50فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں۔ 2006ء میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں پاکستان کا گراف بہت بلند تھا جو توانائی کے بحران کی وجہ سے نیچے آ گیا ہے۔ اب تو ہم اس شعبے میں عالمی سطح پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں۔ نئی ٹیکسٹائل ملز بالکل نہیں لگ رہی ہیں یعنی ہماری صنعت کا پھیلائو رک چکا ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں عالمی منڈی میں ہم سے آگے ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ان ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا نہیں ہے۔ پھر وہاں پر بجلی بھی سستی ہے۔ نارتھ امریکہ اور یورپین یونین کے 27ممالک نے ہمیں جی ایس پی پلس سٹیٹس دیا ہے لیکن پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ٹیکس کی اس چُھوٹ سے بھی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے کیونکہ یہ سٹیٹس ہمارے لئے اسی صورت فائدہ مند ہو سکتا ہے جب ہماری پیداواری صلاحیت مکمل طور پر متحرک ہو لیکن توانائی کے بحران نے ہماری صنعت کو معذور کر رکھا ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہوں، نئی صنعتوں کے قیام کا سلسلہ یکسر رُک چکا ہو تو ہماری پیدواری صلاحیت بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب پروڈکشن ہی نہیں ہو گی تو ایکسپورٹ کیا کریں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان حالات میں مقامی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں ۔ بہرحال ہمیں نان ٹریڈیشنل مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرنے چاہیں۔
گیس کا بحران اور سسکتی ٹیکسٹائل انڈسٹری
Feb 28, 2014