گزشتہ دو روز سے بعض اہم فرائض کی ادائیگی کے لئے میں اسلام آباد میں تھا۔ لاہور سے روانگی کے وقت دل و دماغ پر ایک بوجھ تھا کہ میں پہلی بار نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت سے مجبوراً محروم ہو رہا ہوں۔ روانگی سے پہلے کیولری گرائونڈ لاہور چھائونی میں شرکت کے دوران وہاں بینڈ باجوں کے ترانوں کے دوران گورنر سلمان تاثیر پر گولیوں کی بوچھاڑ اور ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی کا بھی ذکر لازم تھا۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقہ میں چھائونی کی FIRING RANGES تھی جہاں ہر وقت مختلف ٹارگٹس پر نشانہ بازی کی مشقیں کی جاتی تھیں۔ اکثر ٹارگٹ گتے کے اوپر انسانی شکل کا دوسری جنگ عظیم کا دشمن جاپانی سپاہی ہوتا تھا۔ اس حوالہ سے فرنٹیئر کور اور فوج و پولیس کے ان پاکستان کے بہادر جانثاروں کا بھی ذکر آیا جو حال ہی میں افغان سرحد کے اس پار قید کی حالت میں طالبان کے ہاتھوں نہایت بے رحمی سے شہید کر دیئے گئے تھے۔ میرے اسلام آباد سفر کے دوران میرے ذہن پر ایک گہرے صدمے کی طرح بوجھ تھا کہ ہم اپنی اسلامی تاریخی اور انسانی قدروں کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں۔ اسی اُلجھن میں اسلام آباد پہنچ کر جس جگہ رات کا کھانا تھا وہاں بدقسمتی سے میزبان نے مہمانوں کو ایک ویڈیو فلم دکھائی۔ جس نے میرے لاہور کی گزشتہ شب کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ سب حاضرین کے درد و کرب کا عالم دیدنی تھا۔ بغیر ایک لفظ کہے نمناک آنکھوں سے لمحہ بھر ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا اب بھی مذاکرات کی کوئی گنجائش باقی ہے۔ ایک صاحب بولے کیا وزیراعظم نے یہ ویڈیو دیکھی ہے۔ جواب ملا کہ ممکن نہیں جس کا فرض منصبی وزیراعظم کو با خبر رکھنا ہو اس نے اپنا فرض ادا نہ کیا ہو۔ جبکہ اس کا نام ہی اسم بامسمی ظہیر اسلام ہے۔ بے چینی کے عالم میں رات گزری تو خواب میں پہلے کیولری گرائونڈ لاہور چھائونی کی FIRING RANGES پر سامنے کے انسانی وجودوں کے گتے کے ٹارگٹ پر گولیاں چلنے کا منظر چلنے لگا۔ جس کے ساتھ ہی منظر بدلا اور اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں گولیوں کی آواز سنائی دی۔ سڑک کے کنارے ایک لمبی قطار میں پاکستان فرنٹیئر کور کے جوان کھڑے تھے اور باری باری ہر ایک کی پشت پر ایک یا دو گولیاں چلائی جاتی تھی جس پر اس کا لاشہ زمین پر گرتے ہی باریش منہ ڈھانپے ہوئے لوگوں کا ہجوم اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا تھا اور ایک دوسرا جوشیلا دیکھنے میں پکا مسلمان باآواز بلند اعلان کر رہا تھا جن لوگوں نے ہمارے مجاہدین کو موت کی نیند سلایا ہے انکے عبرتناک انجام کو اپنے سامنے دیکھ لو۔ آئندہ بھی جو ہمارے آدمیوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلے گا اس کا انجام یہی ہو گا اس پر نعرے بلند ہوتے ہیں۔ ’’انشاء اللہ‘ انشاء اللہ‘ اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘۔یہ کون سا اسلام ہے جو ہمیں امن کی بجائے دہشت گردی کا درس دیتا ہے کیا یہ میثاق مدینہ کا مظاہرہ ہے؟ کیا یہ پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کا رول ماڈل ہے؟ کیا حضرت مولانا سمیع الحق اور حضرت مولانا فضل الرحمن نے یہ ہوشربا منظر جو میں خواب میں دیکھ رہا تھا انہوں نے کسی ویڈیو فلم میں دیکھا ہے۔ اچانک خواب کا منظر تبدیل ہوتا ہے اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ راولپنڈی GHQ کے ساتھ گزرنے والی ایک سڑک کے اس پارک ایک پانچ منزلہ بلڈنگ کی چھت پر دو باریش آدمی اپنی وضع قطع میں اللہ اکبر اور انشاء اللہ کے نعرے لگانے والوں کی شکل و صورت اور لباس و قدوقامت سے ملنے جلتے گردونواح کی عمارات جن میں GHQ کا تمام اندرونی حساس رقبہ انکے کیمروں کی زد میں ہے‘ فوٹو گرافی کے دوران پاک فوج کے پانچ چھ جوان بجلی کی رفتار سے ان دو باریش فوٹو گرافروں پر جھپٹ کر اُن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان سے جو کاغذات تصویریں اور دیگر بارودی سامان برآمد ہوا اس سے وہ اس علاقہ میں 9/11 کا سانحہ وقوع پذیر کر سکتے تھا۔ اتنے میں اذان کی آواز میرے کانوں میں پڑنے سے میں ایک عجیب عالم میں اٹھ کر اللہ کا شکر بجا لایا کہ وطن عزیز ایک قیامت صغریٰ سے محفوظ ہو گیا۔صبح کی اخباروں میں پڑھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کابینہ کے اجلاس میں قومی داخلہ سلامتی پالیسی کی منظوری دیدی ہے اور جب تک طالبان غیر مشروط طور پر جنگ بندی کرتے ہوئے آئین پاکستان کی بالادستی اور پاکستان کی ریاست کی رٹ اور اتھارٹی تسلیم نہیں کرتے ان سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیر آید درست آید۔ اگر یہی فیصلہ پہلے کر لیا جاتا اور سوات میں ہونے والی بغاوت کے کچلے جانے کے بعد حکومت کی سول اتھارٹی اپنے فرائض ان علاقوں میں اَحسن طریقہ کے ساتھ سنبھال لیتے تو افواج پاکستان فاٹا میں جنوبی وزیرستان کے بعد اب تک شمالی وزیرستان میں بھی بحالی امن کی کارروائیاں بڑی حد تک آگے بڑھا چکے ہوتے۔ لیکن کئی وجوہات اور مجبوریوں کی بناء پر ہمیں مذاکرات کی صورت میں امن کی تلاش کرتے کرتے پانچ ہزار بہادر افواجِ پاکستان کی قربانی دینا پڑی اور 40 ہزار معصوم پاکستانی شہریوں کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ یہ ایک بہت بڑی قیمت ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے کسی ایک حصے میں اگر ایک امریکی سپاہی مارا جائے تو امریکہ کے صدر کو رات نیند سے جگا کر اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اور اسی لمحے امریکی حکومت کی پوری قوت اپنے شہری/ سپاہی کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حرکت میں آ جاتی ہے۔
ایک ڈرائونے خواب کا سہانا انجام
Feb 28, 2014