وزیر اعظم کو تربیلا جانے کی جلدی تھی،ان کے لئے سیکورٹی پالیسی کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ تربیلا کا فیتہ چند گھنٹے بعد بھی کاٹ سکتے تھے ۔وزیر داخلہ نے سیکورٹی پالیسی پر پالیسی تقریر کی، انہوں نے بتایا کہ اس کے تین حصے ہیں جن میں سے ایک حصہ خفیہ ہے، باقی دو حصوں میں کیا ہے، یہ بھی فی الحال خفیہ ہیں۔ اسپیکر نے کہا ہے کہ پالیسی پرنٹ ہو رہی ہے۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ پالیسی ابہام کا شکار ہے، حکومت کا فرض ہے کہ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میںلے۔وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کسی ابہام کا شکار نہیں ، البتہ وزیر داخلہ کی تقریر سے کوئی ابہام پیدا ہوا ہے تو اسے مشاورت سے دور کیا جائے گا۔وزیر داخلہ نے میڈیا کے سامنے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے پالیسی پر نظر ڈالے بغیر تنقید کر دی، وہ خود ابہام کا شکار ہیں اور انہی کے دور میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا۔
یہ پالیسی کسی کو دی نہیں گئی تو اس پر نظر کیسے ڈالی جا سکتی تھی، وزیر داخلہ نے یہ ابہام دور نہیں کیا۔حکومت نے ایک پالیسی بنائی، اسے کابینہ سے منظور کروا کر قومی اسمبلی میں اس کا اعلان کر دیا۔
پچھلے سال صدر اوبامہ نے ڈرون پالیسی کا اعلان کیا، ان کی تقریر سے پہلے اس کا مسودہ حکومتی ویب سائٹ پر موجود تھا، مجھے یاد ہے جب اوبامہ نے پہلا حلف لیا تو میں ایک ٹی وی میں کام کر رہا تھا، ابھی اوبامہ نے حلف لیا نہیں تھا مگر میںنے اس تقریرکو نیٹ سے اتار کر اردو میں ترجمہ کیا اور ٹی وی ناظرین کے سامنے پیش کر دیا۔اس میں میرا کوئی کمال نہیں،جمہوریت اور ٹیکنالوجی کا کمال تھا۔
ہماری جمہوریت ہمیں اندھیرے میں رکھتی ہے۔
کیا کسی کو علم ہے کہ حکومت کی سیکورٹی پالیسی کیا ہے، اوراس فقرے کا مطلب کیا ہے کہ مذاکرات اور آپریشن ساتھ ساتھ چلیں گے۔ مذاکرات کرنے والی کمیٹیاں تو کئی ہفتوں سے خاموش ہیں تو کیا اب دوہزار وزنی بم اور ہاوٹزر المعروف رانی توپوںکے گولوں کی زبان میں مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو۔
عمران خان تو اب بھی کہتا ہے کہ ہم امریکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کے سر پر امریکی جنگ کا ہوا بری طرح سوار ہے ، جب سے مغرب کے ساتھ اس کی طلاق واقع ہوئی ہے، اسے شاید مغرب سے بیر ہو گیا ہے۔
وزیر داخلہ کی زبانی پتہ چلا کہ ہمارے ملک میں میں چھبیس انٹیلی جنس ادارے ہیں۔وزیر داخلہ نے یہ نہیںبتایا کہ ملک میں ہسپتال کتنے ہیں، اسکول، کالج کتنے ہیں، بجلی بنانے اور تقسیم کرنے والے ادارے کتنے ہیں اور حکومت کرنے والے افراد کی تعداد کیا ہے اور ان سب کی کارگزاری کیا ہے، کیا حکومت کا کوئی ارادہ ہے کہ وہ تما م ہسپتالوں،اسکولوں ،کالجوں وغیرہ کو ایک اتھارٹی کے نیچے لائے۔اگر نہیں تو حکومت یہ خیال دل سے نکال دے کہ وہ زرداری کی طرح آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لا کر لگام دے سکتی ہے یا ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹیں وزیروں کی میز پر گھمائی جا سکتی ہیں۔ حکومت کو تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ایک پنشنر کی فائل کو اے جی آفس کا کلرک کیوں روکتا ہے، میںنے اپنے دوست احمد سعید چمن کے ڈپٹی گورنر بننے پر کالم لکھا تو صبح سویرے مجھے بہت پرانے صحافی فدا احمد کاردار کافون آیا کہ خدا کے لئے اس سے میری پنشن کا مسئلہ حل کرا دیں ، کاردار کی عمر نوے کے لگ بھگ ہو گی۔وہ ساری عمر اسٹیٹ بنک میں ملازمت کرتے رہے لیکن قلم کی آبیاری میں بھی مصروف رہے۔
اور ذکر پھر سیکورٹی پالیسی کا۔ ن لیگ کی حکومت ہے، فیصلے اس نے کرنے ہیں، زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ اور کابینہ کی مشاورت سے، مگر اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں بیٹھ کر کیا۔ یہ آئین سے بالا تر اقدام تھا۔اور جب امن مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائی گئی تو یہ بھی سرا سر پارلیمنٹ سے باہر کے افراد پر مشتمل ۔ اسے گورننس، ڈپلومیسی اور جنگ یا امن میں سے کسی شعبے کا تجربہ نہ تھا، دہشت گردوں نے کمیٹی کو مذاکرات میںمصروف رکھا اور خود جی بھر کے خونریزی کی۔عوام کے صبر کا پیمانہ اس وقت اچھلا جب کراچی میں کمانڈوز کو بھک سے اڑا دیا گیا اور افغانستان میں ایف سی کے دو درجن اہل کاروں کے گلوں پر چھری پھیر دی گئی، ان کی لاشیں ٹرکوں سے اس طرح پھینکی گئیں جیسے کارپوریشن کے ٹرکوں سے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔ میںنے ہمیشہ یو ٹیوب کے کھلنے کی مخالفت کی ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ حکومت چند گھنٹوں کے لئے یو ٹیوب سے پابندی ہٹا لے تاکہ لوگ دہشت گردوں کی سفاکی، بر بریت ، ہلاکوخانی اور چنگیزیت کا نظارہ کر سکیں۔میںنے کرنل امام کی شہادت کی وڈیو فلم دیکھی اور میری راتوں کی نیند اڑ گئی ، میںنے ایک درجن سیکورٹی قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑا کرکے، انکے ہاتھ باندھ کر، پشت سے ان کو گولیاں مارنے کامنظر دیکھا ہے اور میرے دل و دماغ پر وحشت طاری ہو گئی ہے۔شاید ایسے منظر جہنم میں بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔ میںنے چند روز پہلے کوہاٹ میںخونریزی کی بھیانک تصویریں دیکھی ہیں، میں خدا کے واسطے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان اپنے موبائل فونوں کا استعمال روکیں اور ایسے مناظر انٹر نیٹ پر نہ ڈالیں، معصوم بچے ان کو دیکھ کر چیخیںمارنے لگتے ہیں۔
ایک کتاب بڑی مشہور ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا، لیکن یہاں تو مرنے سے پہلے جو دیکھنے کو مل رہا ہے،اللہ اس سے بچائے۔
حکومت نے ضرور کوئی پالیسی بنائی ہو گی، اسے کئی پردوں میں بھی لپیٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس برقع پوش پالیسی کی منظوری دیتے ہوئے شاید ہی کابینہ کے ارکان نے اسے پڑھا ہو۔
ایک مرتبہ جنرل مشرف نے ایڈیٹروں کو مدعو کیا ، وہ دہشت گردی کی نئی پالیسی کے خدو خال وضع کرنا چاہتے تھے، ہم سب کا خیال تھا کہ جنرل صاحب ہم سے مشاورت کے بعد کوئی پالیسی بنائیں گے لیکن اس وقت ہر کوئی حیران رہ گیا جب مشرف نے کہا کہ اس پالیسی کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ ڈاکٹر مجیدنظامی کلمہ حق کہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ایک دم کہہ اٹھے کہ جب پالیسی بنا کر منظور بھی کر لی تو ہم لوگوں کو کیوں بلالیا گیا۔
آج کسی جنرل کی حکومت نہیں ، تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم سریر آرائے سلطنت ہیں۔مگر کیا انہوںنے بھی وہی ہے جو ایک بد تریں آمر نے کیا تھا، پالیسی بھی بنا لی،کابینہ سے منظوری بھی لے لی اور قوم کو لولی پاپ دے رہے ہیں کہ آپ کے مشوروں سے اس کا ابہام دور کیا جائے گا۔مگر مشاورت کیسے ہو گی، پالیسی کا کوئی ایک نکتہ تک باہر نہیں آیا۔
جنرل مشرف پھر بھی اچھا تھا، اس نے اپنی نئی پالیسی کا ایک نکتہ بتا دیا تھا کہ کشمیر کی جنگ آزادی اب جاری نہیں رہ سکتی، دنیا اس کو دہشت گردی سمجھتی ہے۔
اب دہشت گردوں کے ساتھ کھلی ہمدردی کا اظہار کرنے میں کسی کو ہچکچاہٹ نہیں۔ کیا یہی ہے نئی سیکورٹی پالیسی۔
میں نے سیکورٹی پالیسی کا برقع سرکا کر اندر جھا نکا ہے۔ پہلے خفیہ حصے میں کرکٹ ڈپلومیسی کی تفصیل ہے ۔ اور بال ٹمپرنگ کے سارے طریقے، مزے مزے کے۔