قومی ٹیم کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی اور معین خان کی کسینو یاترا۔۔۔۔۔۔اصل حقائق کیا ہیں؟

چودھری محمد اشرف

گیارہویں عالمی کپ ٹورنامنٹ کے سنسنی خیز مقابلے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں میں جاری ہیں۔ شائقین کرکٹ کی تمام نظریں میگا ایونٹ میں شریک ٹیموں کی کارکردگی پر لگی ہوئی ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور بھارت کی ٹیموں نے جس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے انہیں فیورٹ قرار دیا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں ہر خاص و عام کی نظریں قومی ٹیم پر جمی ہوئی ہیں۔ اور اگر قومی ٹیم کسی بھی حریف ٹیم یا میگا ایونٹ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو پوری قوم جذباتی ہو جاتی ہے قوم جذباتی کیوں نہ ہو آخر یہ کھیل تمام لوگوں کی دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ پاکستان کرکٹ گزشتہ چار پانچ سال سے پہلے ہی ملکی اور غیر ملکی سطح پر تناضات کا شکار چلی آرہی ہے 2009ءمیں لاہرو میں مہمان سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پاکستان پر بند ہو گئے ابھی یہ زخم بھرا نہیں تھا کہ 2010ءمیں انگلینڈ کے دورہ پر گئی قومی ٹیم کے تین کھلاڑی میچ اور اسپاٹ فکسنگ سیکنڈل میں پھس گئے جس پر تینوں کھلاڑیوں سلمان بٹ، آصف اور عامر کو پانچ پانچ سال سزا کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اےک سال بعد 2011ءمیں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کئی الزامات کی ذر میں آکر میدان میں اتری سیمی فائنل اس کا مقدر بنا تاہم بدقسمتی سے میزبان ٹیم کو ہرانے میں ناکام رہی توقع کی تھی چار سال بعد 2015ءمیں ہونے والی عالمی کپ میں قومی ٹیم بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی اور 1992ءکی تاریخ کو دہرائے گی تادم تحریر قومی ٹیم نے 2015ءکے عالمی کپ کے دو میچ کھیلے تھے جن میں بری کارکردگی کی وجہ سے اسے دونوں میچوں میں شکستوں کا سامنا رہا۔ روایتی حریف بھارت نے میگا ایونٹ میں پاکستان کے ہاتھوں نا قابل شکست رہنے کا اپنا اعزاز برقرار رکھا جبکہ دوسرے میچ میں قومی ٹیم کو ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم جس کا ورلڈکپ میں باو¿لنگ کا شعبہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود قومی کرکٹرز کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے۔ پہلے دونوں میچوں میں قومی ٹیم کھیل کے تینوں شعبوں میں کمزور ترین دکھائی دی ہے۔ ورلڈکپ کے اگلے کوارٹر فائنل مرحلے تک رسائی کے لیے باقی مانند میچوں میں نہ صرف کامیابی بلکہ اپنا رن ریٹ بھی اچھا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب کھلاڑی کھیل کے تینوں شعبوں میں اچھا کھیل پیش کرینگے۔ پاکستان ٹیم کی جانب سے ٹورنامنٹ میں ابھی تک ڈسپلن کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن چیف سلیکٹر معین خان کی نیوزی لینڈ میں کسینو ”یاترا“ نے پاکستان کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کے بعد پاکستان ٹیم کو دو میچوں میں ہونے والی شکستوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ معین خان کی کسینو ”یاترا“ اور پاکستان ٹیم کی شکستوں کی اصل وجوہات کیا ہے اس بارے میں اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہی وضاحت کرنا پڑے گی تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ان کی ٹیم کسی صورت تمام واقعہ سے بری الذمہ نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ چیف سلیکٹر کو قانون اور روایت سے ہٹ کر ورلڈ کپ میں بطور چیف سلیکٹر ٹیم کے ساتھ بھجوانے کا فیصلہ بھی انہی کا ہے جس پر بورڈ کا بھاری خرچ بھی ہوا۔ معین خان کی آسٹریلیا نیوزی لینڈ میں ٹیم کے ساتھ موجودگی پر کافی اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے اور پہلے دونوں میچوں میں ہونے والی شکستوں کو بھی ان کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ معین خان اب وطن واپس آ گئے ہیں اگر اس کے بعد بھی قومی ٹیم کی کارکردگی اسی طرح غیر مستقل اور ناقص رہی تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف بھی ایک بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر جہاں کرکٹ حلقوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے حکام کو سابق کرکٹرز کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ معین خان کو اللہ تعالیٰٰ نے بہت زیادہ عزت دی تھی اےک ”مشکوک“ سیکنڈل کی زد میں آکر بدنام ہو گئے ہیں۔ معین خان کے ساتھ کھیلنے والے بعض سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو یقین ہے کہ معین خان کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ حقیقت میں معین خان دوستوں کے ساتھ کسینو”یاتر“ میں صرف کھانا کھانے اور سیروتفریح کے لیے گئے تھے۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے قوم کے بدلتے ہوئے طیور دیکھتے ہوئے معین خان کو فوری وطن واپس پہنچنے کا حکم صادر کیا۔ معین خان وطن واپس تو پہنچ چکے ہیں۔ ویسے تو معین خان آسٹریلیا سے اپنا معافی نامہ پاکستان کرکٹ کو بھجوا چکے ہیں تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ میڈیا میں بھی آکر قوم سے معافی مانگیں۔ قوی امکان ہے کہ پیر کو معین خان چیئرمین پی سی بی کے ساتھ ملکر تمام حقیقت سے انہیں آگاہ کریں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معین خان نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ہے جس سے ملک و قوم کو کوئی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اصل بات تو قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی ہے جس کی وجہ سے پوری قوم کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ کرکٹ بورڈ اور ٹیم کے حوالے سے ہونے والے تمام فیصلوں کے ذمہ دار چیئرمین پی سی بی شہریار خان خود ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اےک ڈیکٹیٹر کی ضرورت ہے جو بورڈ کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم میں آپریشن کلین اپ کرے۔ کرکٹ حلقوں کا خیال ہے کہ بورڈ اور ٹیم میں گروپ بندی کی وجہ سے تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں اگر گروپ بندی اسی طرح برقرار رہی تو ٹیم میں بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہونگے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ٹورنامنٹ میں اپنا تیسرا میچ کا زمبابوے کے خلاف برسبین میں کھیلنے جارہی ہے۔ قومی ٹیم کے لئے یہ میچ بڑا اہمیت کا حامل ہے جس میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ قومی کھلاڑیوں کو کھیل کے تینوں شعبوں میں کم بیک کرنا ہو گا۔
پاکستان اور زمبابوے کی ٹیموں کے درمیان ورلڈ کپ کا اہم میچ کل بروز اتوار کو برسبین میں کھیلا جائیگا۔ پاکستان ٹیم کے لیے اس میچ میں کامیابی ضروری ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 47 ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے 42 میچوں میں پاکستان ٹیم نے کامیابی اپنے نام کر رکھی ہے جبکہ زمبابوے ٹیم صرف تین میچ میں پاکستان کو ہرانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ایک میچ ٹائی اور ایک میچ بغیر نتیجہ رہا ہے۔ عالمی کپ مقابلوں میں دونوں ٹیموں کے درمیان چھٹا ٹاکرا ہوگا۔ اس سے قبل کھیلے جانے والے پانچ میچوں میں سے چار میچوں میں پاکستان ٹیم نے کامیابی اپنے نام کی ہے جبکہ ایک میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ٹیم کا زمبابوے کے خلاف پلڑا بھاری رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2015ءکے عالمی کپ میں مسائل میں گھری پاکستان ٹیم اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھتی ہے یا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن