خبر ہے کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے کچھ دو اور کچھ لو کے ’’اصُول‘‘ کے تحت سینیٹ کی چیئرمین شِپ کے بدلے سابق گورنر پنجاب مخدوم سیّد احمد محمود کے لئے پھر پنجاب کی گورنر شِپ مانگ لی ہے‘‘ ؎
’’کیا خُوب سودا نقد ہے؟ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے!‘‘
دو سیاسی پارٹیوں میں اِس طرح کا لین دین ہو تو اُسے ’’Horse Trading‘‘ نہیں کہتے۔ یہ سب کچھ ’’مُلک اور قوم کے مفاد اور جمہوریت کے تسلسل‘‘ کے لئے ہوتا ہے۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں ہونے والے ’’مِیثاقِ جمہوریت‘‘ کا بھی یہی مقصد تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے NRO کا بھی۔ اِس طرح کے مِیثاق (معاہدے) کے لئے دونوں فریقوں کو اپنی اپنی ذاتی اناء اور اصُولوں کی قُربانی دینا پڑتی ہے اور تمام اختلافات (دُشمنی) کو بھی بھُلانا پڑتا ہے۔
11 مئی کے عام انتخابات سے پہلے وفاق اور سِندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں تھیں۔ تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کہا کرتے تھے کہ ’’بیرونی بنکوں میں جمع کرائی گئی لُوٹی ہُوئی قومی دولت واپس لانے کے لئے مَیں صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسِیٹوں گا‘‘ لیکن وزیرِاعظم مُنتخب ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے برادرِ خورد کو منع کر دِیا۔ یُوں بھی پاکستان کے آئین اور تعزِیراتِ پاکستان کے تحت کسی بھی وزیرِ اعلیٰ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی سابق صدر کو سڑکوں پر گھسٹے۔ تاہم کسی بھی وزیرِ اعلیٰ کو اپنی تقریروں میں شعروں کا تڑکا لگا کر عوام کو خُوش کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ بہرحال خادمِ اعلیٰ پنجاب نے برادرِ بزرگ کی بات مان کر ایک مُستحسن فیصلہ کِیا ہے۔ اب جنابِ زرداری اُن کا موضُوع نہیں ہیں کیونکہ ؎
’’اور بھی غم ہیں زمانے میں ’’عداوت‘‘ کے سِوا‘‘
جنابِ آصف زرداری 5 سال تک صدرِ پاکستان رہے تو میاں نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ (ن) نے ’’جمہوریت کے تسلسل کے لئے‘‘ ’’Friendly Opposition‘‘ کا کردار ادا کِیا اور میاں صاحب کے وزیر ِاعظم مُنتخب ہونے کے بعد جنابِ زرداری اور اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل اُن کے نائبین نے میاں صاحب اور اُن کی حکومت پر چھوٹے موٹے اعتراضات تو کئے لیکن حکومت گرانے کے لئے کوئی مُہِم نہیں چلائی تا کہ جناب عمران خان دھرنا دے کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکیں۔ ایک فِلمی گِیت میں ایک خاتون نے اپنے محبوب سے مُخاطب ہو کر کہا تھا ؎
’’مَیں نے لاکھوں کے بول سہے ٗسانورِیا! تیرے لئے!‘‘
جناب عمران خان اور اُن کی پاکستان تحریکِ انصاف کے دوسرے لِیڈروں نے جب بھی پاکستان کی دو مُتحارب پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مِلّی بھگت کا تذکرہ کِیا تو دونوں جماعتوں کی رُسوائی تو ہُوئی لیکن کسی نے بھی اُس کی پروا نہیں کی۔
ہِندوستان میں بادشاہت کے زوال کے دَور کے شاعر مِرزا غالبؔ کو ہر دَور کا شاعر کہا جاتا ہے۔ مِرزا صاحب نے ہمارے جمہوری دَور کے سیاستدانوں کے لئے یہ شعر پہلے سے ہی کہہ دِیا تھا۔
’’ جانا پڑا رقِیب کے دَر پر ہزار بار
اے کاش! جانتا نہ تری رہگُزر کو مَیں‘‘
لیکن جب بھی ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے دَر پر جاتے ہیں تو ’’اے کاش!‘‘ نہیں کہتے۔ ہر رقِیب سیاستدان کا ’’دَر‘‘ دوسرے کے لئے ’’دَرِِ دَولت‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’ما بدولت‘‘ کلمۂ نَخوت ہے ٗ جِسے پرانے زمانے کے مسلمان بادشاہ خُود اپنی ذات کے لئے استعمال کِیا کرتے تھے۔ دَورِ حاضر میں ہمارا ہر سیاستدان ’’مابدولت‘‘ ہے۔ ’’مابدولت‘‘ کے لُغوی معنی ہیں۔ ’’ہم دولت کے ساتھ‘‘ حضرت موسیٰ ؑ کے دَور میں ایک شخص قارُون نے اِس قدر دولت جمع کر رکھی تھی کہ اُس کے 40 خچرّ صِرف اُس کے خزانے کی چابیاں لے کر چلتے تھے۔
معزّز قارئین و قارِیات! مَیں معذرت چاہتا ہُوں۔ اصل موضُوع یہ تھا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے سینیٹ کی چیئرمین شِپ کے بدلے سابق گورنر پنجاب مخدوم سیّد احمد محمود کے لئے گورنر شِپ مانگ لی ہے۔ مخدوم صاحب پِیر صاحب پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل کی پنجاب شاخ کے صدر تھے جب سابق وزیرِاعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر اُس وقت صدرِِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے انہیں دسمبر 2012ء میں گورنر بنا دِیا تھا۔ مخدوم صاحب موجودہ پِیر پگاڑا سیّد صبغت اُللہ راشدی اور جنابِ گیلانی کے ’’Cousin‘‘ ہیں اور جنابِ گیلانی اور پِیر پگاڑا آپس میں سمبندھی۔ مخدوم سیّد احمد محمود نے گورنر شِپ کا حلف اُٹھاتے ہی کہا تھا کہ ’’مَیں نے اپنے مرحوم والد مخدوم زادہ حسن محمود کی وصِیّت/ خواہش پر پنجاب کی گورنر شِپ قبول کی ہے۔ مخدوم زادہ حسن محمود (مرحوم ) ’’سابق ریاست‘‘ بہاولپور کے وزیرِاعظم رہے تھے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ اختلاف اورپاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سیّد خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے اصُول کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا جائیں گے۔‘‘ چودھری محمد سرور کے پنجاب کی گورنر شِپ سے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال قائم مقام گورنر تو ہیں لیکن بعض لوگوں کا عقِیدہ ہے کہ ’’جب کوئی مکان زیادہ عرصہ تک خالی رہے تو اُس میں بھُوت بسیرا کر لیتے ہیں۔‘‘ پنجاب کا وسیع و عرِیض گورنر ہائوس تو ’’مکانوں کا گورنر‘‘ ہے۔ اِس میں تو بے شمار بھُوتوں کا بسیرا ہو سکتا ہے۔
فرض کرنے میں کیا حرج ہے؟ فرض کِیا کہ مخدوم سیّد احمد محمود دوسری بار گورنر ہائوس میں بسیرا کر لیتے ہیں تو یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ مخدوم ہونے کے باوجود خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز کے احکامات مانتے رہیں گے اور شاید وہ سابق گورنر مخدوم سجّاد حسین قریشی کی طرح اپنے مسائل زدہ مُریدوں کے لئے دُعا اور تعوِیز گنڈا کا ثواب بھی حاصل کرتے رہیں؟
میاں نواز شریف کو گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی سیاست (اقتدار) میں لائے تھے۔ بعد ازاں صدر جنرل ضیاء الحق کی پِدرانہ شفقت سے موصُوف ’’دُخترِ مشرق‘‘ کے برابر کے لِیڈر بن گئے لیکن اب صُورت یہ ہے کہ اُن کا اور جناب ِ زرداری کا بھائی چارہ ہے۔ جنابِ زرداری کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’میری اور میاں صاحب کی دوستی کئی نسلوں تک چلے گی۔‘‘ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیااُلحق نے وزیرِاعظم بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالا تھا۔ 5 جولائی 2014ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں مَیں نے لِکھا تھا۔ ’’یہ بھی مُمکن ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری بااختیار چیئرمین کی حیثیت حاصل کر لیں اور میاں حمزہ شہباز مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھال لیں تو مُستقبل کے اِن دونوں لِیڈروں میں اتنی زیادہ دوستی ہو جائے گی کہ دونوں پارٹیاں ’’اِک مِکّ‘‘ ہو جائیں اور اُس کا نام ہو ’’پاکستان پیپلز مسلم لیگ (ن)‘‘ اِس لحاظ سے پنجاب کی گورنر شِپ کے لئے دوبارہ مخدوم سیّد احمد محمود کو ’’جی آیاں نُوں‘‘ کہنا چاہیے!