چنیوٹ (نامہ نگار) عقیدہ ختم نبوت تمام مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے، 26 فروری کا دن اسلامی تاریخ میں ہمیشہ اُجاگر رہے گا اس روز ممتاز عالم دین مولانا منظور احمد چنیوٹی نے قادیانیوں کے سربراہ مرزا بشیرالدین محمود کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا مگر وہ میدان میں نہ آیا۔ ہم آج بھی قادیانیوں کو دعوت اسلام دیتے ہے مگر مسلمانوں کی پُرامن خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے کیونکہ اس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ چناب نگر میں مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے انہیں مختلف ذرائع سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ادارہ دعوت ارشاد کی منعقدہ 54 ویں فتح مباہلہ کانفرنس سے علماء نے خطاب کرتے ہوئے کیا کانفرنس کے مہتمم مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے گزشتہ روز بھی موٹر سائیکل ریلی کی قیادت کرتے ہوئے دریائے چناب کے دونوں پلوں کے درمیان مقام مباہلہ پر پہنچ کر اپنے والد کے اس اعلان کو دوبارہ دہرایا اور قادیانیوں کے سربراہ مرزا مسرور احمد کو مباہلہ کا چیلنج دیا بعدازاں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ملک بھر سے جیّد علماء نے بھرپور شرکت کی جس میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی امیر مولانا عبدالحفیظ مکی کے بھائی مولانا محمد معین الدین، مفتی محمد طاہر مسعود، علامہ شبیر احمد عثمانی فیصل آباد مولانا محمد الیاس فاروقی سرگودھا سید لال حسین شاہ منڈی بہائو الدین مولانا محمد امین ربانی ٹوبہ قاری محمد یامین گوہر مولانا محمد عبدالوارث مولانا فضل الرحمن درخواستی خانپور سید محمد قاسم شاہ سرگودھا مرزا شمس الدین نو مسلم نذیر احمد نو مسلم کے علاوہ قاری احمد علی ندیم،قاری محمد رفیق وجوی لاہور، قاری شبیر احمد عثمانی، مولانا بدر عالم ، مولانا محمد اسماعیل جامعہ عربیہ، اور مولانا منظور احمد چنیوٹی کے بھائی حافظ خدا بخش نے خطاب کیا علماء نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا چناب نگر میں ہر آنے جانے والے کی تلاشی لی جائے، کانفرنس کے موقع پر پولیس کی بھاری سکیورٹی لگائی گی اور کانفرنس کا پنڈال ختم نبوت زندہ باد جانثاران ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونجتی رہی اور 53 ء سے 1974 ء کی ختم نبوت کی جرت مندانہ خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کانفرنس میں متفقہ قراردادیں پیش کی گئی جن میں 54ویں سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس ،ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ کا یہ اجتماع ملک کی عمومی صورت حال کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اس پر مختلف حوالوں سے تشویش و اضطراب کا اظہار ضروری سمجھتا ہے۔ قراردادوں میں مزید کہا گیا ملک کے نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی بنیادوں کے خلاف عالمی سیکولر لابیوں کی مہم اور دبائو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ریاستی ادارے اس کے بارے میں مسلسل تغافل اور بے پروائی کا شکار ہیں جو اس مہم کی بالواسطہ حمایت اور خاموش معاونت کے مترادف ہے۔ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی عقائد و تہذیب کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش قیام پاکستان کے تہذیبی اور نظریاتی مقاصد اور پس منظر کی نفی ہے۔ یہ اجتماع حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسیوں کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے دستور پاکستان پر عملدرآمد اور خاص طور پر اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں اور تمام ریاستی اداروں کو دستور کے مطابق ان پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔ یہ اجتماع اس عزم کا ایک بار پھر اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ پاکستان کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے، دستور کی اسلامی بنیادوں کو کمزور کرنے اور پاکستانی قوم کو اسلامی و مشرقی ثقافتی اقدار و روایات کے ماحول سے نکال کر مغربی و ہندووانہ ثقافت کو فروغ دینے کی ہر کوشش کا مقابلہ کیا جائے گا۔ یہ اجتماع مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بڑھتی کشیدگی اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات کی موجودہ صورت حال کو انتہائی تشویش و اضطراب کا باعث قرار دیتا ہے اور اسے کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی اپیل اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مساعی کا خیر مقدم کرتا ہے۔ آج سے 40 سال قبل(27فروری1976،) ربوہ میں مسلمانوں کے پہلے فاتحانہ داخلے کی مناسبت سے 27فروری 2016ء کو ربوہ (حالیہ چناب نگر) میں مجلس احرار اسلام اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام ’’یوم فتح ربوہ‘‘منایا گیا۔ اس موقع پر مولانا محمد مغیرہ، مولانامحمود الحسن اور قاری شبیر احمد عثمانی نے چناب نگر میں مختلف مقامات پر خطابات کئے۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ سید عطاء المہیمن بخاری ،نائب امیر پروفیسر خالد شبیر احمد، سید محمدکفیل بخاری اور عبداللطیف خالد چیمہ نے’’یوم فتح ربوہ‘‘کے حوالے سے اپنے بیان اور پیغام میں کہا ہے ہم آج کے دن اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام کے نفاذ سے ہی بقا ممکن ہے۔