میں جب امی جان اور ابا جی کے مزاروں پر کھڑی ہوئی تو پائوں کے نیچے مجھے زمین بہت ٹھنڈی اور میٹھی محسوس ہوئی، اس زمین میں سے محبت کی‘ شفقت کی اور عنایت کی خوشبوں نکل رہی تھی۔ کتنے دنوں کے بعد میں اپنی جنم بھومی میں آئی تھی۔ یہاں میرے والدین استراحت فرما ہیں۔ تو پہلے میں ان کے قدم چھونے آئی ہوں، ہمارے سرائیکی وسیب کی روایت بھی یہ رہی ہے کہ بچے ہمیشہ والدین کے قدم چھو کر ملتے ہیں۔ ان کے قدموں کی چھائوں میں میں پروان چڑھی، ان کی دعائوں نے مجھے دنیا میں سر بلند ہونے کا سلیقہ بخشا… میں وہاں کھڑی اپنی ہتھیلی پر آنسوئوں کے دئیے جلاتی رہی، اور ان سے پوچھتی رہی کہ میکہ بچپن کی خوبصورت یادوں کا کعبہ بنکر دل میں کیوں رہتا ہے۔ اور ذہن میں اس کعبے کا طواف کیوں کرتا رہتا ہے۔ اور زندگی لوٹ لوٹ کر اس کعبے کی طرف کیوں آتی ہے۔ اور جو کچھ آپ نے عطا کیا اسی کی خیرات میں اب تک کھا رہی ہوں، بانٹ رہی ہوں، لکھ رہی ہوں، بول رہی ہوں، کبھی آپ کی بخشی ہوئی نعمتیں کم ہوتیں تو میں اپنا آپ تول سکتی نہ بول سکتی۔ آپ میرے قلم سے نکل رہے ہیں آپ میرے بولوں میں ڈھل رہے ہیں آپ میری نظروں کی قندیلیں روشن کر رہے ہیں…
اتنے سخی تو صرف ماں باپ ہی ہوسکتے ہیں۔ کہ ان کی بخشی ہوئی دعائیں کبھی ختم نہ ہوں۔ ہر آڑے وقت میں سائبان بنکر آجائیں۔ سر پر ہاتھ رکھ دیں۔ راستوں کو آسان کردیں۔ یہ خوبصورت شہر، یہ میرا شہر ہے۔
مجھے پاکستان میں اس سے اچھا کوئی شہر نظر نہیں آتا۔ اسکی چھائوں میں ماں کی معطر گود کی مہک ہے۔ اور اسکی دھوپ میں باپ کی خود کفیل گرمی کی حدت ہے۔
میں چلتے ہوئے آکر دھوپ میں بیٹھ گئی۔ یہ فروری کا مہینہ ہے۔ یہ صحرائی شہر ہے۔ دن میں بہرکیف دھوپ اور رات میں خنک فضا۔ حد نظر تک پھول نظر آ رہے ہیں۔ اب بہاولپور بھی ایک بڑا شہر بنتا جا رہا ہے۔ اس کی کشادہ سڑکوں پر کئی کئی منزلہ پلازے بن گئے ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران کھل گئے ہیں۔ بڑے بڑے بازار بن گئے ہیں۔ شوکیس شوق کو بھڑکانے کا سودا لئے کھڑے ہیں آبادی بھی بڑھ گئی ہے۔ بھیڑ بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ لیکن دور تک بہاولپور کا آسمان صاف ستھرا چمکدار اور قدرتی مناظر کی نیلاہٹیں لئے کھڑا ہے۔ کتنا روشن آسمان ہے۔ فضا میں گہرا پن نہیں ہے۔ بالکل اس شہر کے مکینوں کی طرح… یہ سادہ دل اور سادہ لوح لوگ ہر آنے والے کو اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔ در دل کشا کردیتے ہیں۔ یہ پاکستان سے عشق کرنے والے لوگ ہیں۔ اپنی دھرتی اور اپنی مٹی کی آبرو رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کے بھی کئی روگ ہیں۔ یہ بھی اپنے دارو کی تلاش میں ہیں۔
نواب آف بہاولپور نے سب سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح کو اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ جب بہت سے اپنے بھی انہیں دیوانہ کہہ رہے تھے۔ تب نواب آف بہاولپور نے ان کا دامن پکڑ کے ان کے ساتھ چلنے کا عہد کرلیا تھا اور تاریخ جانتی ہے کہ دامے درمے سخنے قدمے وہ قائداعظم کے ساتھ رہے۔ یہ وفاکیش خطہ ہے۔ یہاں دریائے ستلج بہتا ہے۔ آجکل اس کے لب خشک ہیں۔ سرحد پار سے اس کا بدن نچوڑ لیا گیا ہے۔ کسی زمانے میں یہ خطہ سبز اور زرخیز تھا۔ گندم روٹی اور دوسری اجناس میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ سارے پاکستان کو فراہم کرتا تھا۔ مگر اب کچھ عرصہ سے اس کے کھیت اور کھلیان سفید زہر اگل رہے ہیں۔ اس کے مہربان اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ چولستان کی سہاگن زمینوں کو ہتھیانے والے، چولستان کے غریب کسان کی قسمت نہیں بدل سکے۔ قسمت تو قوت ارادی سے بدلی جاتی ہے۔ قسموں اور وعدوں سے نہیں بدلی جاتی۔
یہ علاقہ جسے اب جنوبی پنجاب کہتے ہیں۔ بے آب و گیاہ ہو تا جا رہا ہے۔ کسان امید بھری نظروں سے اپنے ہم وطن آقائوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ابھی تک ان گلیوں میں وہ بچے کھیلتے ہیں جو تن پر ایک کرتا پہنے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک تعلیم کی سہولت صرف تقریروں تک محدود ہے۔ ابھی تک ان کے منتخب نمائندے اپنے سروں پر سنہری کلخیاں مانگ رہے ہیں۔ اگر ان محنتی کسانوں کو جدید ترین زرعی آلات مل جاتے۔ ان کو اچھے اور سستے قرضے مل جاتے۔ ان کو بجلی کی چھوٹ مل جاتی تو محنت کش کسی بندے کو بھوکا نہ مرنے دیتے۔ یہ زمین کا سینہ چیر کے اجناس کا ڈھیر لگا دیتے۔ انہوں نے اپنے لئے چاند سورج اور ستارے نہیں مانگے۔ بلکہ بانجھ زمین کی مانگ بھرنے کے لئے سہولیات مانگی ہیں۔ ان کو اپنے جانوروں کے لئے چارہ درکار ہے، چھت درکار ہے، ان کو اپنے بچوں کے لئے سستی تعلیم درکار ہے، یہ چلچلاتی دھوپ میںہل چلانے کے قائل ہیں…
یہ صرف تالیاں بجانے کے لئے نہیں بنائے گئے۔
اس سرمئی زمین کو راستہ بھر دیکھتی آئی ہوں۔ کیسی اجڑی اجڑی لگ رہی ہے۔ ہر شہر کی آسائشیں صرف بڑے شہر تک محدود رہتی ہیں۔ گائوں، دیہات، قصبے، پسماندہ علاقے درماندہ رہتے ہیں…
میں سڑک پر نکل کر دور تک نگاہ دوڑاتی ہوں۔ اسرار میں ڈوبا شہر مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے آج یونہی پیدل میں سارے شہر کا چکر لگائوں اور پوچھوں اک اک ذرے سے کہ تم پر کیا گذری…
شہر میں نکل کر دیکھا کہ بہاولپور کے مشہور و معروف دروازے دوبارہ تعمیر ہو رہے ہیں۔ یہ شہر دروازوں کاشہر تھا۔ سٹیشن سے نکل کر اگر کوئی آبادی کی طرف آتا تھا تو چاروں طرف کھڑے ہوئے عالیشان دروازے اس کا استقبال کرتے تھے۔ ایک طرف ڈراوڑی گیٹ تھا۔ دوسری طرف احمد پوری گیٹ تھا۔ تیسری طرف ملتانی گیٹ تھا۔ چوتھی طرف بیکا نیری گیٹ تھا۔ کسی سیانے نے اس کا نام فرید گیٹ رکھ دیا۔ تو بہت اچھا لگا۔ خواجہ صاحب بھی تو فرماتے تھے۔ جھوکاں تھیسن آباد ول۔ گذرے دنوں میں کوئی ایسا خود پسند آیا تھا جس نے سارے دروازے تڑوا کے شہر کی انفرادیت ختم کر دی تھی۔ یہ دروازے ہمارے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان کے بغیر مجھے یہ شہر ٹنڈ منڈ درخت کی طرف لگا تھا۔ اب شہر میں کوئی صوفی منش، سخن طراز کمشنر آیا ہے جس نے پہلے کی طرح یہ قد آور دروازے بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ میں اسے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور دعا دیتی ہوں۔ انہوں نے بہاولپور کو اسکی تاریخی شناخت واپس کردی ہے۔
اے لوگوں! خود پسند دیوانو! شہروں کی شکلیں نہ بدلو۔ ان کے اندر آسانیاں اور سہولیات پیدا کرو۔ اسلاف کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اس میں اضافے کی تدبیر کرو۔ چلتے چلتے میں رشید یہ آڈیٹوریم میں آگئی۔ رشیدیہ آڈیٹوریم کے آگے سے میں چپ چاپ نہیں گذر سکتی۔ یہ خود مجھے اندر بلاتا ہے۔ اس کے در و دیوار مجھے بلاتے ہیں، یاد دلاتے ہیں۔
ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ریاض الحق بھٹی نے بڑے ادب سے کرسی پیش کی۔ وہ ارداس کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی دو کتابیں ’’ارداس اور صبح نو روشن‘‘ بھی دیں…
تھوڑی دیر اس نوجوان اور انتہائی مودب شاعر سے بات کرنے کے بعد میرا جی خوش ہوگیا۔ میں نے ریزہ ریزہ ہوتے آڈیٹوریم کی بوسیدہ دیواروں سے کہا۔ اپنے آنسو پونچھ لو تمہارا درد آشنا آگیا ہے۔ امید ہے اگلی بار اس آڈیٹوریم میں دانش کا چراغاں دیکھونگی۔ انشاء اللہ
یہ کتنی خوبصورت اور چاندی کی طرح چمکتی دھوپ ہے۔ جی چاہتا ہے یہ دھوپ بوریوں میں بھر کر لاہور لے جائوں اور اپنے صحن میں بچھادوں۔ یہاں کہرے نے سبزے کے تن سے لباس اتار رکھا ہے۔ پل پل موسم بدل رہا ہے۔ اس دھوپ میں کتنی جان ہے ہزار ہا ہیٹر اس پر سے قربان ہوسکتے ہیں۔ اس دھوپ نے یہاں جنم لینے والوں کو فن اور ہنر کی توانائیاں بخشی ہیں…
گرمیوں کی چھائوں اور سردیوں کی دھوپ صحرا کا بے بہا تحفہ ہوتا ہے۔ صحرائی لوگ اللہ والے ہوتے ہیں۔ صحرائی آوازیں شہروں میں جاکر جادو جگاتی ہیں۔ چلیئے اقربا پروری کے اس دور میں ہم آپ کو اپنے ہی شعر سناتے ہیں؎
لندن، پیرس، امریکہ جاپان کے شہر میں بھی دیکھ لئے
ستلج پر اپنا وہ شہر پرانا اچھا لگتا ہے
مجھ کو ساتھ آبادی کے ویرانہ اچھا لگتا ہے
شمع کی لو کو جیسے ہر پروانہ اچھا لگتا ہے