”وہ بھی کمبخت تیراچاہنے والانکلا“

پانامہ لیکس کے تاریخی مقدمے کی 23 فروری 2017 کو سماعت مکمل ہوگئی اور عدالت نے مختصر حکم نامے کی بجائے تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کیلئے فیصلہ محفوظ کرلیا اور اعلان کیاکہ کچھ دنوں میں فیصلہ سنایا جائیگا۔ عدالت کا کیا فیصلہ ہوگا اس پرکوئی تبصرہ نہیں ہو سکتا لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کے بہترین ججوںنے مقدمے کی سماعت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت، تحریک انصاف اور شیخ رشیدنے اعلان کیا کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے یا خلاف اس کو قبول کیا جائیگا اور یقین کیا جائیگا کہ میرٹ پر فیصلہ ہوا ہے۔ پانچوں ججوں نے اپنی بہترین صلاحیتوںکے مطابق مقدمے کی سماعت کی اور سچ جاننے کی کوشش کی۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیںکہ فریقین 20 سال بعد بھی درست تسلیم کریں جبکہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ فیصلہ اپنی عقل و دانش کے مطابق کرینگے ہم نے اللہ کو جان دینی اور اپنی قبر میں جانا ہے۔ عمران خان کوعدالت نے روسٹرم پرآ کر بات کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ میں عوام کیلئے آیا ہوں۔ پوری دنیا میں بدعنوان قیادت کیخلاف عوامی احتجاج کی لہر چل رہی ہے کہ بدعنوان قیادت کا احتساب کیا جائے۔ ترقی یافتہ ملکوںکے ادارے مضبوط ہیں لیکن ہمارے ادارے مضبوط نہیں میری کسی سے بھی کوئی ذاتی دشمنی نہیں میں کرپشن ختم کرنے کیلئے یہاں آیا ہوں لیڈرکوعام شخص سے زیادہ ایمانداراور دیانتدار ہوناچاہئے قیادت کی ایمانداری سب سے بالاتر ہے اگر میری دیانتداری ثابت نہ ہو تو مجھے بھی عوامی عہدے پرآنے کا کوئی حق نہیں اگر عوامی نمائندے ایماندار نہ ہوں تو اسکے منفی اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ پاکستانی قوم دنیاکی ان 10 اقوام میں شامل ہے جو سب سے زیادہ خیرات اور فلاحی کاموں میںحصہ ڈالتی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے پیچھے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران چوہدری اعتزازاحسن کی وزیراعظم نوازشریف کو عدالت میں طلب کرنے کی خواہش تو پوری نہ کی لیکن چیئرمین NAB اور FBR کو 21 فروری کو طلب کیا۔ چیئرمین نیب نے وزیراعظم کے خاندان کے خلاف اپیل نہ کرنے پراپنے موقف کا زبردست دفاع کیا جبکہ عدالت نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ نیب آف شورکمپنی والوں سے پوچھیں گے اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیںتوآپ بھی کسی کو بلا لیتے۔ عدالت نے کہاکہ NAB نے اپنے اختیارکودفن کر دیا ہے ادارے مفلوج ہونے کاآئیڈیل کیس ہے۔ عدالت نے کہا کہ حدیبیہ پیپرزمل کیس میںNAB نے معاملہ ہی ٹھپ کر دیا ہے۔ نیب کواپیل کرنی چاہئے تھی۔ چیئرمین NAB نے کہا کہ اپیل دائرنہ کرنے کے اپنے موقف پرقائم ہوں۔ عدالت نے کہاکہ چیئرمین NAB کو اسکے نتائج بھگتنا ہونگے۔ چیئرمین FBR نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ ٹیکس چوروں کی جنت ہے۔ عدالت نے کہا کہ لگتا ہے آپ کو تصدیق کیلئے مزید30 سال درکار ہیں۔ FBR نے گھنٹوں کے کام پرایک سال لگا دیا ہے۔ FBR جوکچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے کون کب سے بیرون ملک میں ہے ایک گھنٹے میں پتہ چل سکتا ہے۔ سینئر جج آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ اگرکوئی ریاستی ادارہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دیتا توکیس عدالت ہی نہ آتا 22 فروری کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ NAB گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا NAB کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہوگیا۔ وزیراعظم کیلئےNAB انشورنس پالیسی تھی۔ عدالت نے کہا کہ چیئرمین نیب نے ہمارے سامنے جوکہا وہ یہ تھا کہ میں نے کچھ نہیں کرنا جوکرنا ہے کر لو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب کے جواب کے بعد یہ مصرعہ کہہ سکتے ہیں”وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا“عدالت نے کہا کہ چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جوکیا ہمارے سامنے وہ کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کوئی تعاون نہیں کر رہا اس ساری صورتحال میں پاکستان کے قومی ادارے بے بسی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سامنے صرف نیب اور ایف بی آر کے چیئرمین پیش ہوئے تو اداروں کی ناکامی اور بے بسی کا شدت سے احساس ہوا۔ ان چھ قومی اداروں کا براہ راست عام آدمی ملکی معاملات اور جمہوریت کو مضبوط کرنے سے تعلق ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے دو دہائیاں قبل بھارت کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارے CBI کے معاملے میں فیصلہ کیا تھا جب CBI کرپشن کے سنگین معاملات میں اعلیٰ سرکاری شخصیات کیخلاف کارروائی نہیں کر رہا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ سنایا جس نے CBI کو آزاد اور اسے ریاست کا کرپشن کےخلاف موثر ادارہ بنانے میں آسانی پیدا ہوئی۔
مقدمہ یہ تھا کہ ایک شخص اشفاق حسین لون پر دہشتگرد تنظیم کارکن ہونے کا الزام تھا کو گرفتار کیا گیا تفتیش کے نتیجے میں CBI نے ایک شخص سریندر کمار جبین‘ اسکے بھائیوں، رشتہ داروں اور کاروباری شخصیات کے گھروں پرچھاپے مارے۔ CBI نے اس دوران غیر ملکی کرنسی، دو ڈائریاں اور دو نوٹ بک برآمد کئے۔ ان ڈائریوں کے ذریعے بھاری ادائیگیوں کا علم ہوا جو کہ بیوروکریٹس، حکومتی اور غیر حکومتی سینئر سیاستدانوں کو کی گئیں اور انکے دستخط ڈائری میں تھے۔ CBI کی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی اور الزام لگایا کہ ادارہ کوئی کارروائی نہیں کر رہا کیونکہ بڑی شخصیات ملوث ہیں بلکہ CBI ان لوگوں کو بچا رہا ہے۔ یہ ملکی سالمیت‘ تحفظ اور معیشت کیلئے نقصان دہ صورتحال ہے۔ عوام کے تحفظ، قانون کی بالادستی، جمہوریت کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریاں اور فرائض پر کاربند رہتے ہوئے ہر اس شخص کیخلاف کارروائی کریں جو کرپشن میں ملوث ہو چاہے اس کا تعلق سیاست کی کسی بھی سطح سے کیوں نہ ہو۔
بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ CBI کو قانونی حیثیت دی جائے۔ سینٹرل ویجیلنس کمشنر کے عہدے کا تقرر وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور اپوزیشن لیڈر پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے کیا جائے۔ بہترین ساکھ کے بندے کا نام کابینہ کمیٹی میں پیش کیا جائے اور صدر اسکی تقرری کریں۔ CBI کو کام کاج کے اختیارات دئیے جائیں اور جن معاملات کی تحقیقات ہونگی انکے status، تحقیقات میں ہونیوالی پیشرفت، چارج شیٹس اور معلومات کمیشن کو پیش ہونگی۔ کمیشن ایسے مقدمات پر جائزہ لے گا جو CBI کی جانب سے سرکاری ملازمین کے خلاف منظوری بھیجے جائیں گے۔ دیگر افسروں کا تقرر بھی ایک کمیٹی کریگی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 2003ءمیں بھارتی وزیر قانون کی مداخلت کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہاکہ وزیر قانون اگرچہ ادارے کے سربراہ ہیں لیکن انکے پاس کوئی بھی اختیار ایسا نہیں جو اسکو کسی بھی مقدمے کی تحقیقات اور پراسیکویشن میں مداخلت کی اجازت دے سکے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سامنے آنے والے مقدمہ کی طرح پاکستانی سپریم کورٹ کے سامنے بھی ایسا ہی مقدمہ پیش ہوا اور اداروں کی حالت زار بھی سامنے آئی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سپریم کورٹ پرانے دور والی ثابت نہیں ہو گی۔ میاں ثاقب نثار پرانے چیف جسٹسوں سے مختلف ہیں اور پانچ رکنی بنچ کسی بھی ماضی کے بنچ سے بہت مختلف ہے۔ انشاءاللہ بڑے بڑے اور اچھے اچھے فیصلے ہونگے۔ تاریخ رقم ہو گی۔ ملک کی سمت درست ہو گی۔ ادارے مضبوط ہونگے اور ملک ترقی کرےگا۔

ای پیپر دی نیشن