کراچی (کرائم رپورٹر)سیہون دھماکے کو11 دن گزرگئے لیکن اب تک سندھ پولیس سیکورٹی پلان ترتیب نہ دے سکی۔8 دروازوں میں سے 7 اب تک سیل ہیں صرف ایک گیٹ آمدروفت کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔ نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق 100پولیس اہلکارتوتعینات کردیئے گئے لیکن ایک بھی خاتون اہلکارنہیں ۔ 16 فروری کی شام حضرت لعل شہباز قلندر کے مزارپر خودکش حملے میں جہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ،وہیں درگاہ کی ناقص سیکورٹی پربھی کئی سوالات اٹھے۔90 سے زائدزائرین جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اورکتنے ہی معذورہوگئے۔ مزارکے احاطے میں 48 کیمروں میں 40 فعال توہیں لیکن مزار کے باہرنکلیں تونہ کوئی کیمرہ اورنہ ہی کیمرے کی آنکھ ہے۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد اب بھی ایمبولینسز مزار کے باہرنظرنہیں آتیں، اس ساری صورتحال پر زائرین پریشان بھی ہیں۔ اے ایس پی سمیع ملک کے مطابق 100پولیس اہلکارمزارپرتعینات ہیںلیکن لیڈی کانسٹیبل ایک بھی نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سیہون دھماکے کے بعد مزار کی مکمل سیکورٹی کا نظام وضع کرنے کا حکم دیاتھا۔ ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ امین یوسف زئی نیمزار کی سیکورٹی لاہور میں درگاہ داتا گنج بخش کی طرز پر کرانے کے لئے نہ صرف لاہور کا دورہ کیا بلکہ بعد میں وہ لال شہباز قلندر بھی آئے لیکن اب تک لعل شہباز قلندر کا یہ تاریخی مزارسیکورٹی پلان کا منتظر ہے۔مزار پر زائرین کی تعداد پہلے جیسے ہی، نذرونیاز اور دھمال کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دوسری طرف سیہون خودکش حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیموں نے دہشت گرد حملے سے پہلے کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی جس میں خودکش دہشت گرد کے ساتھ دو مشتبہ افراد کو مزار کے احاطے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سی سی ٹی وی میں دونوں افراد کو دھماکے سے قبل مزار کے گرد مشکوک سرگرمیاں کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق دونوں افراد مبینہ طور پر خودکش بمبار کے سہولت کار ہوسکتے ہیں۔ پولیس نے عینی شاہدین کی مدد سے دونوں مبینہ سہولت کاروں کی تلاش شروع کردی ہے۔