لاہور میں ادبی ثقافتی سرگرمیاں بہت ہوتی ہیں مگر آج ہم نامور پنجابی شاعرہ طاہرا سرا کی دعوت پر شیخوپورہ گئے۔ وہاں شیخوپورہ آرٹس کونسل کا افتتاح تھا اورمختلف ادبی تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔ طاہر اسرا نے ہمیں بلایا تھا، لاہور سے پنجابی زبان کے شاعر کلیان سنگھ اور سکھندر جی میرے ساتھ تھے۔ طاہرا سرا نے میری ڈیوٹی لگائی تھی کہ ان دونوں کو بھی ساتھ لے کے آئو۔ ہم تینوں سردار ایک ساتھ شیخوپورہ پہنچے۔ سکھندرجی ٹورنٹو کینیڈا میں پنجابی میگزین ’’سنواد‘ کے ایڈیٹر ہیں۔
ایک دفعہ چیف منسٹر پنجاب (بھارت) سے لاہور آئے تھے۔ تب میں ایک دوسرے اخبار میں تھا۔ جس کے چیف ایڈیٹر محمود صادق میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ بھارتی پنجاب کے چیف منسٹر میری طرف دیکھے جا رہے تھے۔ محمود صادق نے کہہ دیا کہ آپ ہمارے ایک دوست کو دیکھے جا رہے ہیں۔ اُس نے میری پگڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہمارا دوست ہے۔ آپ نے ان کو کہاں سے اغوا کیا ہے۔ اس کے بعد ایک ہلکی سی ہنسی سارے کمرے میں پھیل گئی۔ پگڑی مسلمانوں کی روایت بھی ہے۔ مگر ہم روایت کی پابندی نہیں کرتے۔
شیخوپورہ میں وارث شاہ آڈیٹوریم کا افتتاح بھی 25 فروری کو تھا۔ اس تقریب کو ماں بولی دیہاڑ میلہ بھی کہا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اب ماں بولی کا لفظ ترک کر دینا چاہئے۔ یہ پیو بولی بھی ہے کہ ہم سب پیو بن گئے ہیں اور ہم پنجابی بولتے ہیں۔ ہر ملک و قوم کی اپنی ماں بولی ہو گی تو اب اس لفظ سے کنفیوژن پیدا ہو سکتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ طارق محمود بخاری نے افتتاح کیا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس محبوب عالم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل ثمن رائے بھی موجود تھے۔ افتتاح وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے کیا۔ اس دوران ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا بھی ہوا۔ مجھ سے پہلے یہ واقعہ ہوا۔ ورنہ میں بھی بھنگڑے میں شرکت کرتا۔ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہمارے گھروں میں خواتین و حضرات دونوں بھنگڑا ڈالتے ہیں۔
جب ہم پہنچے تو سیمینار شروع ہو چکا تھا۔ بعد میں بھی وقفے وقفے سے ڈھول بجتا تھا۔ جب میں ناچنے کو اٹھنے لگتا تو ڈھول بجنا بند ہو جاتا۔
سیمینار میں ماں بولی کی بات ہوتی رہی۔ جبکہ میں نے عرض کیا ہے کہ اب ماں بولی ترک کر کے پنجابی زبان کہا جانا چاہئے۔ سیمینار میں میرے علاوہ کلیان سنگھ سکھندر جی عامر ریاض قاضی جاوید، پروین ملک، نیازی نے بھی گفتگو کی ، لوک گلوکار اشرف نے عالم نواز کی جگنی سنا کے سماں باندھ دیا۔
پنجابی مشاعرہ بھی ہوا جس کی صدارت پروفیسر اکرم سعید نے کی۔ مہمان اعزاز اسسٹنٹ کمشنر شبیر بٹ تھے۔ مشاعرے کی نظامت طاہرہ سرا نے کی۔ انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری بھی سنائی۔ ارشد نعیم‘ اظہر عباس‘ نعیم گیلانی‘ شبیر حسین زیدی‘ شائق نظامی‘ نادرہ خیال‘ میم سون محزن‘ فیضوری لعل ٹھاکر اور ریاض اکبر نے اپنا کلام سنایا۔
آخر میں ڈرامہ ہیر رانجھا پیش کیا گیا جس کے پروڈیوسر پرویز ملک تھے۔ خواتین و حضرات نے بڑی دلچسپی سے یہ ڈرامہ دیکھا۔
اس کے بعد ہم اسلام غازی کے گھر غازی مینار پہنچے۔ ان کے مرحوم بھائی کیلئے فاتحہ خوانی کی اور ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ اس دوران کھیلوں کے مقابلے بھی ہوئے جن میں گلی ڈنڈا‘ باندر کلا‘ لمبی گھوڑی‘ پٹھو گرم اور وانجو شامل ہیں۔ احسان المالک منیجر وارث شاہ ایڈیٹوریم نے اپنے دفتر میں مہمانوں کی خاطر تواضع کی۔ صرف ہم لاہور سے گئے ہوئے تین آدمی مہمان تھے۔ شیخوپورہ والے بھی تھے اور وہ بھی مہمان بنے ہوئے تھے۔
شیخوپورہ ادبی اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے آرٹس کونسل کا قیام اور افتتاح ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ اب امید ہے کہ شیخوپورہ میں ادبی سرگرمیاں باقاعدگی سے جاری رہیں گی۔ ہم کبھی کبھی ادبی محلفوں میں شرکت کیلئے گوجرانوالہ اور فیصل آباد جاتے رہتے ہیں۔ اب شیخوپورہ بھی جایا کریں گے۔ ہم طاہرہ سرا کیلئے بھی ممنون ہیں۔
ممتاز شاعرہ اور ادبی شخصیت عمرانہ مشتاق نے لاہور میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ کسی سیاسی بلکہ حکومتی پارٹی کی طرف سے تخلیقی سرگرمیوں کی سرپرستی دیکھنے میں آئی۔ عمرانہ مشتاق نے شاید تحریک انصاف جائن کی ہے۔ نمایاں ادبی خواتین و حضرات سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کریں گے تو ملک کی تعمیری صورتحال میں ایک ایسی تبدیلی آئے گی جس کا برسوں سے انتظار ہے۔ ہم عمرانہ مشتاق کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہ دروازہ کھولا ہے اور لکھنے والوں کی آوازیں سرکار دبار تک پہنچیں گی اور اس کے بہتر نتائج سامنے آئیںگے۔
تحریک انصاف کے نمایاں لوگوں میں کئی چہرے نظر آئے۔ میرے ساتھ سٹیج پر عمر خیام بیٹھے تھے اور میاں جاوید علی بھی سٹیج پر موجود تھے۔ میاں جاوید عمر، خیام اور میں نے اس مشاعرے میں تقریریں کیں۔ عمر خیام کی تقریر میں ایک اچھی غزل کا لطف تھا۔ انہوں نے بہت روانی اور آسانی سے بڑی مشکل باتیں یہاں کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری زندگی کا دوسرا مشاعرہ ہے۔ اس مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر اجمل نیازی کر رہے ہیں۔ پہلا مشاعرہ ایف سی کالج میں ہوا تھا۔ وہاں بھی صدارت ڈاکٹر اجمل نیازی کر رہے تھے۔
ان کی دلپذیر تقریر کے بعد مجھے بھی تقریر کرنا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ مشاعرہ عمر خیام کی تقریر کیلئے منعقد کیا گیا تھا
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
میں خوش ہوا کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جن کو دوبارہ سننے کیلئے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ تحریک انصاف میں ایسے لوگ موجود ہیں تو اسے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ماننے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ ایک تو تحریک انصاف کی ممتاز ادبی خاتون نے مشاعرہ کیا اور پھر عمر خیام جیسے آدمی کی تقریر سنوائی۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کسی سے چند اشعار لکھوا لئے جاتے اور سنا دیئے جاتے۔ مجھے یقین ہے کہ جس شاندار لہجے میں یہ اشعار عمر خیام پڑھتے تو انہیں سب سے زیادہ داد ملتی۔ اب بھی سب سے زیادہ پسندیدگی جس شخص کو ملی وہ عمر خیام ہے۔
عمر خیام فارسی کے ایک بہت بڑے شاعر ہیں۔ اس انفارمیشن کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے عمرخیام بھی شاعری شروع کر دیں‘ لیکن میری عمرانہ سے گزارش ہے کہ وہ ایسے مشاعرے ضرور منعقد کرایا کریں جس میں عمر خیام کو بھی بلائیں۔ مشاعرے کی نظامت عمرانہ مشتاق نے کی۔ کسی مشاعرے کی کامیابی اچھی نظامت کی مرہون منت ہوتی ہے اور یہ ایک بہت کامیاب مشاعرہ تھا۔
شیخوپورہ میں آرٹس کونسل اور منصف مشاعرہ
Feb 28, 2019