ٹرمپ اور کم جانگ جوہری مذاکرات کا دوسرا دور شروع

Feb 28, 2019 | 14:46

ویب ڈیسک

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جون ان کے درمیان جوہری ہتھیار ڈالنے کے معاملہ پر مذاکرات کا دوسرا دور ویتنام میں شروع ہو گیا ہے جبکہ کم جانگ کے ساتھ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، ہم صحیح ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔غیر ملکی خبررسا ں ادارے کے مطابق پچھلے سال کے پہلے تاریخی سربراہی اجلاس کے بعد ڈی نیوکلئیرآئزیشن پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ سب نظریں اس بات پر ہیں کہ شاید کچھ ٹھوس اقدامات پر اتفاق کر لیا جائے۔شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ کے ساتھ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے،ہم صحیح ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔شمالی کوریا کے رہنما کا کہنا تھا کہ انہیں لگ رہا ہے کہ اچھے نتائج حاصل کر لیے جائیں گے۔امید کی جارہی ہے کہ شمالی کوریا سے ایٹمی ہتھیاروں کو ہٹانے کے لئے ایک روڈ میپ پر بحث کی جائے گی اور کورین جنگ یا رابطہ دفاتر کے خاتمے کے باقاعدہ معاہدے کا اعلان بھی کیا سکتا ہے۔شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے منگل کو ویتنام پہنچے تھے۔دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اہیمت کے حامل پہلے مذاکرات گذشتہ سال جون میں سنگاپور میں ہوئے تھے ۔ کم جانگ ان جب ڈینگ ڈانگ بارڈر کے اسٹیشن پہنچے تو رسمی گارڈز اور جھنڈے لہراتے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔وہ ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی کے لیے بذریعہ گاڑی اسٹیشن سے روانہ ہوئے جہاں سکیورٹی دستے اور عوام کی بڑی تعداد ان کی منتظر تھی۔روایتی کالے سوٹ میں ملبوس کم جانگ ان کے گارڈز بھی سٹیشن پر ان کا انتظار کر رہے تھے اور ان کی گاڑی روانہ ہونے پر کچھ فاصلے تک ان کے ہمراہ بھاگتے رہے۔کم کے دادا اور شمالی کوریا کے پہلے رہنما کم ال سنگ نے بھی ویتنام اور مشرقی یورپ کا سفر بذریعہ ٹرین کیا تھا جس کی وجہ سے کم کا یہ سفر ایک علامتی اہمیت بھی رکھتا ہے۔دورہ ویتنام میں کم کی بہن کم یو جونگ اور سابق جرنل کم یونگ چول بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ یہ دونوں شخصیات سنگاپور میں ہونے والے گذشتہ مذاکرات میں بھی کم جانگ ان کے ساتھ تھیں۔شمالی کوریا کے رہنما کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ بذریعہ ہوائی جہاز ہنوئی پہنچے ہیں۔ امریکی صدر کا طیارہ میری لینڈ کی ائیر بیس سے روانہ ہوا اور منگل کی رات ہنوئی پہنچا۔صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ترک کر دے تو وہ دنیا کی 'عظیم معاشی طاقت بن سکتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ترقی کرنے کے امکانات دیگر ممالک سے زیادہ ہیں۔ جبکہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے چند گھنٹے قبل امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا تھا کہ شمالی کوریا ابھی بھی ایک جوہری خطرہ ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا جوہری ہتھیار ترک کر دے تو وہ دنیا کی 'عظیم معاشی طاقت' بن سکتا ہے ۔اتوار کو امریکی گورنروں کی ایک تقریب میں صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی کو جلدی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں بس جوہری ہتھیاروں کا تجربہ نہیں چاہتا۔ جب تک کوئی تجربہ نہیں ہو رہا ہم خوش ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اہیمت کے حامل پہلے مذاکرات گذشتہ سال جون میں سنگاپور کے شہر میں ہوئے تھے۔ اس سے پہلے دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف صرف بیان بازی ہی کرتے تھے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دفعہ دونوں رہنماں کو اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ ان مذاکرات سے بہت توقعات وابسطہ ہیں اس لیے انھیں ٹھوس پیشرفت ظاہر کرنا ہو گی یا کم از کم مستقبل کا لائحہ عمل ضرور پیش کرنا ہوگا۔

مزیدخبریں