ایک نصاب کا نعرہ اور حقیقت

Feb 28, 2020

ربیعہ رفیق

وفاقی وزیر برائے تعلیم و فنی تربیت شفقت محمود نے مارچ تک ملک میں ایک نصاب نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی حصہ بھی ہے۔وزیراعظم عمران خان ایک عرصے سے ملک میں ایک نصاب کی بات کرتے چلے آرہے تھے ۔جناب عمران خان کا یہ قوم پر ایک احسان ہے کہ انہوں نے حکومت کا منصب سنبھالنے کے بعد تعلیم جیسے بنیادی مسلے پر توجہ مرکوز رکھی اور ملک میں یکساں نصاب تعلیم کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ وفا کرنے کی نوید سناتے رہے۔ خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان متعدد بار ملک میں ایک نصاب کے حوالے سے کہہ چکے ہیں۔گزشتہ دنوں بھی ایک تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ملک میں ایک نصاب ضروری ہے تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں۔ہم جانتے ہیں کہ نصاب ایک سانچے کی مانند ہوتا ہے جس میں آنے والی نسلوں کو ڈھال کر عملی وقومی زندگی میں خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ ذہنی تربیت جیسی ہوگی ویسی ہی شخصیت ہوگی۔ اگر چہ انسانی کردار کی تشکیل اور تعمیر، گھر اور معاشرے سے شروع ہوتی ہے۔لیکن سکول کا ماحول، استاد کا علمی ذوق، شخصیت اورنصاب اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ہیں۔ بچپن اور سکول کی سطح تک طالب علموں کا ذہن ایک ایسی صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر جو بھی نقش و نگار بنادیئے جائیں وہ ساری زندگی ساتھ نبھاتے اور انسانی رویوں کی تشکیل کرتے رہتے ہیں۔ آج کہا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت پندرہ سال کی عمر تک جیسی بنادی جائے بقایا زندگی تقریباً ویسی ہی رہتی ہے۔ زندگی میں کوئی انقلاب آجائے یا انقلابی صورت سے پالاپڑجائے۔ یعنی انسان کی اخلاقی شخصیت کا آغاز بچپن سے ہوجاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جسے بچپن ہی سے سچ بولنے، برائیوں سے بچنے، چوری اور دھوکے دہی سے دور رہنے کی عادت پڑجائے وہ تقریباً ساری زندگی ان اصولوں کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ تعلیم انسان کی کردار سازی میں سکول کی سطح کو فیصلہ کن اہمیت دیتے ہیں۔اسی کے پیش نظر ترقی یافتہ ممالک میں سکول کے نصاب میں اخلاقی اصولوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضروریات کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ سکول کے نصاب اور تربیتی سرگرمیوں میں بچوں کو نظم و ضبط، قانون کے احترام، اخلاقی اقدار، حسنِ سلوک، دوسروں کے حقوق، سچائی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ نصاب میںٹریفک، صفائی، فضائی آلودگی وغیرہ جیسے مضامین پر بھی مواد شامل کیا جاتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں یہ کام قدرے آسان ہے کیونکہ ہم سکولوں کی نصابی کتب میں اسوئہ حسنہ سے آسان واقعات منتخب کرکے شامل کرسکتے ہیں جن سے بچوں میں اخلاقی اقدار بھی پروان چڑھیں گی اور مذہب سے وابستگی بھی قائم ہوگی۔ مطلب یہ کہ بچپن ہی سے بچوں میں سچائی، ایمانداری اور حب الوطنی پیدا کرنے کے لئے نصاب کو ان خطوط پر تیار کیاجائے تاکہ پاکستان کی آئندہ نسلیں کردار کے حوالے سے معزز ٹھہریں۔ اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے علاوہ نصاب کا اہم ترین کردار طالب علموں کو معیاری اور کار آمد تعلیم دینا ہے تاکہ سکول، کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر وہ قومی زندگی اور قومی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔ ان میں مطالعے، تحقیق اور غور و فکر کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ اعلیٰ درجے کے سائنس دان، اکانومسٹ، انجینئر، ڈاکٹر، بزنس مین، صنعت کار، سیاسی رہنما اور سول و ملٹری آفیسر اور شہری بن سکیں۔
پاکستان کا روشن مستقبل بہرحال تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے امکانات سے وابستہ ہے۔ جتنی اعلیٰ اور معیار ی تعلیم ہوگی اتنی ہی قومی ترقی کی رفتارتیز ہوگی۔وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی بصیرت افروز نگاہ کی یہاں داد دینی بنتی ہے کہ جس نے اس اہم مشن کی تکمیل کے لیے سینیر سیاستدان جناب شفقت محمودصاحب کا انتخاب کیا۔شفقت محمود پاکستان کے بہت سینئر سیاستدان ہیں۔ان کا نا م ان چند سیاست دانوں میں آتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں دلیل سے بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور جو پی ٹی آئی قائد عمران خان کے ساتھ کئی سالوں سے منسلک ہیں ۔جو عمران خان کا ویژن بہت اچھے سے جانتے ہیں اور جنہیں احساس ہے کہ ملک میں افراتفری بے روزگاری اور نوجوان نسل میںجو ایک خلاء آتا جارہا ہے ۔رویوں میں جو بگاڑ آچکا ہے ۔قانون شکنی اور لاپروائی کی جو ہوا چلی ہوئی ہے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں تعلیمی ادارے اپنی من مرضی سے طلبا کو اپنی مرضی کا نصاب اپنے اپنے انداز میں پڑھا رہے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی احساس ہے کہ جب تک ملک بھر کے نوجوان ایک ہی نصاب تعلیم نہیں اپنائیں گے تب تک ایک قوم بننے کا خواب صرف خواب ہی رہ جائے گا ۔

مزیدخبریں