اونٹ لائبریری اور تعلیم

Feb 28, 2021

میاں غلام مرتضیٰ

دوردراز کے علاقوں میں تعلیم کانام ونشان تک نہیںہے، سکول کے نام پر بس چار دیواری ہے، نہ بیٹھنے کو کمرہ جماعت، نہ لکھنے کو کوئی بورڈ، ستم بالائے ستم اگر کوئی استاد بھولے سے اس’ ’کھلے سکول‘‘ میں آہی جائے تو وڈیرے یا ’’جاگیر دار‘‘ کے ظلم وستم کا نشانہ بن جاتا ہے۔اس بدترین صورتحال کے باوجودبلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند میں ’اونٹ لائبریری‘ قائم کی گئی ہے، یہ پسماندہ علاقے میںامید کی کرن ہے۔یہ وہ دیا ہے جو اندھیرے میں روشنی کررہا ہے اور دور دراز اور پہاڑی علاقوں کے بچوں کو ان کی دہلیز پر کتابیں فراہم کی جارہی ہیں۔بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں جہاں بچوں کو پرائمری سکول کی سہولت تک دستیاب نہیں،وہاںــ’’اونٹ لائبریری‘‘ پراجیکٹ شرح خواندگی بڑھانے کا اہم منصوبہ بن گیا ہے۔اس متحرک لائبریری کا آئیڈیا منگولیا اور ایتھو پیا سے لیاگیاہے۔ ہفتے میں چار دن اونٹ پر کتابیں لاد کر دیہا ت میں شام چار سے چھ بجے کے دوران وہاں پر بچوں کوزیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔بلوچستان کی تعلیمی حالت کسی سے چھپی ہوئی نہیںہے وہاںپر ’’اونٹ لائبریری‘‘ ایک انتہائی حوصلہ افزا پراجیکٹ ہے۔کورونا وائرس کے پھیلائو کے دوران حکومت کی جانب سے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو بند کرتے ہوئے پچاس ملین سے زائد طلبہ کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کی بندش نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے بچوں کو نمایاں طور پر متاثر کیا جہاں آن لائن تعلیم یاکلاسز کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پہلے ہی پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں شرح خواندگی سب سے کم ہے۔ پاکستان کے شماریات بیورو کے مطابق دیہی علاقوں میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباًباسٹھ فیصد بچے سکولز سے باہر ہیں۔اس انوکھی اور منفرد لائبریری کا مقصد یہ ہے کہ اگر بچے سکول نہیں جاسکتے تو کتابیںتو ان کودی جاسکتی ہیں؟بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں بچوں کو پرائمری سکول کی سہولت تک دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں مند اور گرد و نواح کے دیہات میں شروع کیا جانے والا پراجیکٹ ’’اونٹ لائبریری‘‘ تاریکیوں میں روشنی بکھیرتی امید کی کرن ہے۔ مند کے صحرائی علاقے کے تقریباً نصف درجن دیہات میں بچے سارا ہفتے ان کتابوں کا انتظار کرتے ہیں۔ بلکہ بچے ہی کیا، لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین بھی اس اونٹ کی راہ تکتی ہیں جو ان کے لئے کتابیں لاتا ہے،صحرا میں جرس کارواںکی آواز کتنی مسحور کن ہوتی ہے کبھی صحرا کے باسیوں سے پوچھوتو معلوم ہو ۔ افسوس صد افسوس مند اور آس پاس کے دیہات میں بچوں کو کچھ زیادہ تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں بلکہ بہت سے دیہات میں تو پرائمری سکول تک نہیں ہیں لیکن ’’اونٹ لائبریری‘‘ پراجیکٹ بہت مقبول ہورہا ہے۔ بلوچستان کو اگر ایک کتاب دوست نسل مل گئی تو سمجھ لیں کہ تعلیم کا حق ادا ہوگیا۔اگر آج ہم خود سے یہ عہد کریں کہ ہم نے ایک قلم اورکتاب دوست نسل کو تیار کرنا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ اپنے قوم کے نوجوانوں کو مستقبل کے ہر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ عہد ہے علم و شعور کا۔ آج کے دور میں خود کو منوانے کے لیے انسان کو علمی و سائنسی بنیادوں پر خود کو تیار کرنا ہوگا۔ہمارے عہد کے نوجوان اتنے باصلاحیت اور پرامید نظر آرہے ہیں کہ وہ اپنے بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی رہنمائی کی جائے۔ اس وقت ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم ایک متحد نوجوان قیادت دینے میں آج کے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ مفت تعلیم ، شعور دینا، لائبریریوں کا قیام حکومت وقت کے فرائض میں شامل ہے ۔ مگر یہی کام ہمارے رضاکار نوجوان جس احسن طریقے سے کر رہے ہیں، چا ہے وہ بلوچستان کے دورافتادہ علاقہ مند کی (اونٹ لائبریری) ہو یا کنٹینر لائبریری گوادار کے علم دوست ساتھی یا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بک میلہ کا انعقاد کرنے والے ہوں۔کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی دوراندیشی کا روشن پہلو یہ ہے کہ ہم ان رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس سے معاشرہ انحطاط کا شکار ہو۔ نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں مگران کو ایک ایسی صدیق قیادت کی ضرورت ہے جو اتار چڑھائو پہ ان کی رہنمائی کرے، مگر افسوس سے اس کا فقدان ہے۔ اگر اس باہمت اور باصلاحیت نسل کو ایک پلیٹ فارم پہ متحد کرنے میں اس کی قیادت نے کوتاہی دکھائی تو اس کے بہت ہی منفی اثرات سماج پہ پڑیں گے اور نوجوان مزید افراتفری کا شکار ہوگا۔اس وقت بلوچستان میں سلجھی ہوئی نوجوان نسل موجود ہے بس اس کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے اس واسطے تعلیمی بجٹ کو بڑھانا ہو گا ۔مغرب کی ترقی کا راز صرف تعلیم ہے اور اسی تعلیم کے بل پر انہوں نے پوری دنیا پر راج کیا ہے جبکہ مشرق کے زوال کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کریں تو ہمیں اپنے تعلیمی شعبوں کو مضبوط کرنا ہوگا، اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام اور سستا کیا جائے تا کہ کوئی بھی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اور سب کو یکساں تعلیمی مواقع میسر آسکیںپھر شعر یاد آتا ہے۔
 ؎کوئی عرب کے ساتھ ہو یا ہو عجم کے ساتھ
کچھ بھی نہیں ہے تیغ نہ ہو جب قلم کے ساتھ

مزیدخبریں