یوں تو ترقی پذیر ملکوں میں شفاف انتخابات کرانا ایک خواب ہے۔ اب تو امریکہ جیسی ترقی یافتہ جمہوریت میں بھی صدارتی انتخاب میں بھی بڑا پھڈا پڑا رہا لیکن ترقی پذیر ممالک میں جہاں جمہوری نظام تجربات سے گذر رہا ہے وہان منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی انتخاب ہوا ہو جو متنازعہ نہ ہو۔ پچاس کی دہائی میں ہونیوالے انتخابات بھی ہمیشہ متنازعہ رہے۔ اس دور میں جو دھاندلی ہوتی تھی اسے اپوزیشن والے ’’ جُھرلُو‘‘ کہتے ہیں جب ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاء لگایا اور صدارتی نظام حکومت متعارف کیا تو 1964 میں ایوب خان نے صدارتی الیکشن کروایا۔ اس الیکشن میں صرف 80 ہزار بنیادی جمہوریت کے کونسلرز کو ووٹ دینے کا اختیار تھا۔ یہ انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر نہیں ہوئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے 80 ہزار کونسلرز نے ووٹ ڈالے جن پر اثر اندازہونا بڑا آسان تھا۔ 1964 کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح صدارتی امیدوار تھیں۔ غیر جانبدار سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق فاطمہ جناح بھاری اکثریت سے جیت رہی تھیں لیکن ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کر دیا گیا اور ایوب خان ایک مرتبہ پھر صدر بن گئے۔ اس صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے اثرات تین سال کے اندر ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے کیونکہ ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان میں سیاسی بے چینی نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ 1970 کے انتخابات بڑی حد تک منصفانہ تھے اگرچہ ایک حلقے کی رائے یہ ہے کہ ان انتخابات میں بھی ’’ جُھرلُو‘‘ چلایا گیا لیکن پاکستان کے انتخابات کے معیار کے مطابق یہ انتخابات منصفانہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے نتیجے میں ملک ہی دولخت ہو گیا کیونکہ اکثریت مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے سربراہ مجیب الرحمٰن کو ملی تھی جنھیں وزیراعظم بنانے کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا جس سے ملک دولخت ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو جو مغربی پاکستان میں اکثریت لے چکے تھے انھیں اقتدار دیا گیا۔ وہ صدر اور سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کے دوران مارچ 1977 کے الیکشن کرائے جن میں انھوں نے چاروں صوبوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اپوزیشن نے ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا۔
1977 کے ان انتخابات کے خلاف بھٹو کی اپوزیشن نے ایک زور دار احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں فوج نے ٹیک اوور کر لیا اور پانچ جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرائے جن کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا اور ان انتخابات کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں فوج کی چھتری تلے ہونے والے انتخابات قرار دیتی رہیں۔ 1988 میں جنرل ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد جو انتخابات ہوئے جن میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہو گئیں لیکن بے نظیر کو یہ شکوہ رہا کہ پنجاب میں ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو اٹھارہ ماہ بعد صدر نے آئینی اختیارات کے تحت گھر بھیج دیا۔ 1990 میں جو انتخابات ہوئے انکے نتیجے میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی۔ بے نظیر بھٹو نے جو اپوزیشن لیڈر تھیں اس انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کیا اور انھوں نے کہا کہ ایوان صدر میں بیٹھے کچھ افراد نے ان انتخابات کے نتائج کو چُرا لیا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے ان انتخابات کے بارے میں ایک کتاب ’’ ہائو دی الیکشن واز سٹولن‘‘ بھی لکھی۔ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے جب انتخابات کرائے گئے تو انکے نتیجے میں بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن گئیں لیکن نواز شریف نے ان انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کیا اور بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے تین ماہ بعد تحریک نجات شروع کر دی۔ بے نظیر حکومت کو ایک مرتبہ پھر 1996 میں فارغ کر دیا گیا اور دوبارہ انتخابات ہوئے تو بی بی نے اس الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب 2008 کے انتخابات ہوئے ان میں پیپلز پارٹی کو فتح حاصل ہوئی، بعض تحفظات کے ساتھ ن لیگ نے یہ نتائج تسلیم کر لئے۔ جب 2013 میں الیکشن ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے الزام لگایا کہ یہ ’’آر اوز‘‘ کے الیکشن ہیں تاہم انھوں نے میثاق جمہوریت کا بھرم رکھنے کیلئے نتائج تسلیم کر لئے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد اب تک اپوزیشن یہ کہہ رہی ہے کہ ان انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی گئی۔ ابھی ہفتہ پہلے جو ضمنی انتخابات ہوئے ان میں بے قاعدگیوں پر احتجاج اور شور شرابا جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج کو کالعدم قرار دیکر دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ پاکستانی قوم یہ سوچ رہی ہے کہ اس امر کے باوجود کہ چیف الیکشن کمشنر حکومت اور اپوزیشن مشاورت سے مقرر کرتے ہیں اور اس ادارے کوخود مختار بنانے کی بھی بہت کوششیں ہوئی ہیں۔ اسکے باوجود الیکشن کمیشن سے عوام کو توقعات نہیں کہ وہ ایک فیئر اینڈ فری الیکشن کرا سکے گا۔2023 کا الیکشن تو سخت محاذ آرائی کی فضا میں منعقد ہو گا۔ اگر یہ انتخاب بھی منصفانہ نہ ہوا تو اسکے نتائج بہت ہی خطر ناک ہونگے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اسٹبشلمنٹ کو مل کر ابھی سے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ 2023 کے انتخابات کو حقیقی معنوں میں منصفانہ بنایا جائے تا کہ الیکشن کے بعد ملک میں احتجاج ،تشدد اور شور شرابا برپا نہ ہو اور ان نتائج کو سیاسی جماعتیں تسلیم کر لیں۔ اسی طریقے سے پاکستان میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔