مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ کا پاکستان بھارت مذاکرات کا مشورہ اور یواین سیکرٹری جنرل کا کردار ادا کرنے کا عندیہ
امریکہ کی جوبائیڈن انتظامیہ نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر براہ راست مذاکرات کریں۔ اس سلسلہ میں واشنگٹن میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈپرائس نے پریس بریفنگ کے دوران اپنے ابتدائی کلمات میں پاکستان بھارت ڈی جی ایم اوز کے مابین ہاٹ لائن رابطے اور جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرنے کے عزم کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہم دونوں فریقین کے مابین بہتر روابط کی جاری کوششوں‘ ایل او سی پر کشیدگی اور پرتشدد واقعات کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جب امریکہ کے کردار کی بات آتی ہے تو ہم مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات پر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ یقینی طور پر اعلان کردہ سمجھوتے کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے بالکل واضح ہیں کہ ہم ایل او سی کے پار دراندازی کرنیوالے دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوئٹرس نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے پاکستان اور بھارت کی عسکری قیادت کے مابین سمجھوتے کو ایک مثبت قدم قرار دیا۔ اس سلسلہ میں سیکرٹری جنرل کے نمائندے نے ایک بیان میں کہا کہ سیکرٹری جنرل کا فی الوقت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دونوں ملکوں کی قیادت سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں تاہم سیکرٹری جنرل کسی بھی ریاست کی درخواست پر اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر والکان بوز نے بھی پاکستان اور بھارت کے فوجی نمائندوں کے درمیان سیزفائر کے حوالے سے ہونیوالے سمجھوتے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیہ دوسروں کیلئے مثال قرار دیا۔
اگر بھارت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعات ختم ہونگے بلکہ اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی بھی ضمانت مل جائیگی جو آج بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر سخت خطرات کی زد میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر اور پانی کے تنازعات پر پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور اقوام متحدہ اور سارک سربراہ کانفرنس سمیت ہر علاقائی اور عالمی فورم کے اجلاسوں کے موقع پر بھی پاکستان کی قیادت نے بھارتی قیادت کے ساتھ بات چیت میں کبھی پس وپیش سے کام نہیں لیا۔ اسکے برعکس بھارت پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کے موقع پر کشمیر کا ذکر آتے ہی بدکتا اور رعونت کے ساتھ مذاکرات کی میز الٹاتا رہا ہے جبکہ ممبئی حملوں کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے انتہائی رعونت سے پاکستان کے ساتھ ہر سطح کے مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد آج تک عملاً پاکستان بھارت اعلیٰ سطح کے مذاکرات نہیں ہو پائے اور دو سال قبل جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے رویے سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء کو پہنچا دی تھی۔ اسی طرح پانی کے مسئلہ پر بھی شیڈول کئے گئے مذاکرات بھارت ہی ملتوی کرتا اور لٹکاتا رہا۔
بھارت کی موجودہ مودی سرکار نے تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنا ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے چنانچہ انہوں نے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان کو مدعو کرنا بھی گوارا نہ کیا اور اس سے قبل انہوں نے پلوامہ خودکش حملے کی آڑ میں پاکستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا ماحول بنا دیا اور 26 فروری 2019ء کو پاکستان پر حملے کی نیت سے بھارتی فضائیہ کے جہاز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل بھی کر دیئے جو پاک فضائیہ کے فوراً چوکس ہونے پر رفوچکر ہو گئے تاہم اگلے روز 27 فروری کو بھارت نے پھر حملے کی نیت سے بھارتی جہاز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کرنے کی کوشش کی جنہیں پاک فضائیہ کے چاک و چوبند دستے نے فضا ہی میں اچک لیا اور دوبھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارت نے یہ ہزیمت اٹھانے کے باوجود پاکستان سے کشیدگی بڑھانا ترک نہیں کیا اور پانچ اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اپنے زیرتسلط کشمیر کو باقاعدہ طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا۔
اس بھارتی ناجائز اقدام پر عالمی برادری نے سخت احتجاج اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اور جب اس ایشو پر پاکستان بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی سے علاقائی اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوا تو امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی جو مودی سرکار نے رعونت کے ساتھ ٹھکرا دی۔ ٹرمپ نے بعدازاں اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر بھی اور دوسرے دو مختلف مواقع پر بھی ثالثی کی پیشکش دہرائی مگر مودی سرکار کے کان پر جون تک نہ رینگی۔ اسی طرح چین‘ برطانیہ اور دوسری عالمی قیادتوں کے علاوہ یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت ڈائیلاگ کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی مگر مودی کے سر پر پاکستان سے کشیدگی بڑھانے کی دھن ہی سوار رہی۔
یہ امر واقع ہے کہ کشمیر کو متنازعہ بنا کر بھارت خود اقوام متحدہ گیا تھا جس کی درخواست پر سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد میں کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی تو بھارت اس قرارداد سے ہی منحرف ہو گیا۔ یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں اس ایشو پر درجن بھر قراردادیں منظور ہو چکی ہیں مگر بھارت کسی ایک کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔ سلامتی کونسل نے تو گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران تین بار اپنے ہنگامی اجلاس طلب کرکے بھارت سے اپنی قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کا کہا ہے مگر بھارت نے اسکے بجائے اپنے زیرتسلط کشمیر میں گزشتہ 572 روز سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ اس بھارتی رویے کے ہوتے ہوئے اس سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر اس حوالے سے امریکہ اور اقوام متحدہ کو خوش گمانی ہے کہ پاکستان بھارت براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے تو وہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ کریں اور اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی یقین دہانی حاصل کرلیں۔ پاکستان مذاکرات کیلئے بھی ہمہ وقت تیار ہے اور بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا بھی مکمل حق رکھتا ہے۔ عساکر پاکستان اس کیلئے مکمل تیار بھی ہیں۔