تک سوہنا پنجاب، نی اَڑئیے !


یہ تو سب ہی جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہوں گے کہ اردو زبان کی پیدائش مغل دور میں ہوئی تھی۔ مغل دور میں جب برصغیر پاک و ہند پر مغل بادشاہت کو عروج حاصل ہوا توسرکاری زبان بھلے فارسی رکھی گئی لیکن مختلف علاقائی زبانوں سے لفظ ادھار لے کے  اردو کو لشکری زبان یعنی رابطے کی زبان کا درجہ دیا گیا۔انگریز سامراج آیا توانہوں نے دفتری زبان انگریزی قرار دیتے ہوئے اس خطے میں آباد لوگوں کو ایک نئی دوڑ میں اُلجھا دیا۔جن چند فیصد کو انگریزی آتی تھی انہیں بابو کہا جانے لگا، یعنی انگریزی بولنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔انگریز سرکار نے باقی سبھی علاقائی زبانوں کو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے دیا لیکن پنجابی پڑھانے پر پابندی لگا دی۔لوگوںکے گھروں تک سے پنجابی قائدے جمع کر لیے گئے،اگر تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ پہلے مغلوں اور بعد میں انگریزوں کو پنجابیوں کی طرف سے بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔یہ مزاحمت نہ صرف بہادر پنجابی جوانوں کی طرف سے تھی بلکہ پنجاب کے صوفی شعرا نے بھی وقت کے بادشاہوں کو للکار کے کلمہ ء حق ادا کیا۔انگریز چلا گیا لیکن آج بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پنجاب دھرتی کی بولی ’’پنجابی’’کو ایک طرف تعلیمی اداروں سے دور جارہا ہے تو دوسری طرف فلمی کرداروں ،تھیٹر کے فنکاروں اور ٹی وی پہ کچھ میراثیوں کو بٹھا کے پنجابی بولی کو انپڑھوں کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جب جب پنجابی زبان کو سکولوں میں پڑھانے کی بات ہوئی تو کچھ سیانے اسے عصبیت ، لسانیت اور کچھ کی طرف قومی وحدت کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں۔پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ لوگ ہمیشہ ہر دور میں اپنی دھرتی ماں کی زبان بولنا ہی پسند کرتے ہیں انہیں ماں بولی میں ہی خواب آتے ہیں۔ اس خطے میں عرب سے مسلمان آئے تو اپنے ساتھ عربی زبان لائے۔افغان بادشاہ  اور ایران کے شاہ یہاں تشریف لائے تو انہوں نے فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔انگریز برسراقتدار آئے تو انگریزی زبان دفاتر کی زبان قرار پائی ،اب چین ہم پہ بہت مہربان ہو چکا ہے ۔تو ہمارے لوگ ان کی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں کسی زبان کے پڑھنے پڑھانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔لیکن ہمارے صاحبان عقل و دانش کو اس نقطے کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہیے کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا۔زبان تو مٹی سے پھوٹتی ہے ۔اگر زبان کا تعلق دھرتی سے نہ ہوتا تو باباآدم علیہ السلام کے سارے بچوں کی یعنی ساری دنیا کی زبان ایک ہی ہوتی ،لیکن آج ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بابا آدم علیہ السلام کی اولاد جہاں جہاں آباد ہوتی ہے وہاں ایک نئی زبان ایک نئے لہجے کے ساتھ سامنے آتی چلی جاتی ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ ہر دس میل کے بعد زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے تو اس سے یہ بات جاننا آسان ہوجاتا ہے کہ زبان کا تعلق دھرتی ماں سے ہوتا ہے ۔آپ دیکھ لیجیے کہ عربی جو ہم مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اس کی مکمل سمجھ ہمارے تین چار یا آٹھ دس فیصد لوگوں کو ہی آتی ہوگی ،فارسی جو کبھی یہاں سرکاری زبان تھی آج کل شاید ہی کسی کو اس کی سمجھ آتی ہو اوربقول انور مسعودصاحب انگریزی زبان تو ہم  پڑھتے ہی فیل ہونے کے لیے ہیں ۔کیسی بدقسمتی ہے کہ ہم نے  انگریزسے آزادی تو حاصل کر لی لیکن اس کی زبان کو خود پر لاگو کر کے ذہنی غلامی کے نہ ختم ہونے والے سفر کے مسافر بن ہوئے ہیں ۔ہمیں اردو زبان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔اردو کو رابطے کی زبان بنائیں بلکہ دفاتر میں انگریزی زبان کی جگہ اردو  رائج کرنے کی عملی کوشش کی جانی چاہیے۔اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترویج کے لیے جو ہوسکتا ہے کرنا چاہیے لیکن پنجاب دھرتی کی زبان کو کم تر سمجھنا اور پرائمری سے نصاب کا حصہ بنانے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔بھلے پچھلی دو صدیوں سے پنجابی پنجاب کے نصاب سے باہر ہے لیکن آج بھی پشاور سے دلی تک لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ بولی جانے والی یہی زبان ہے۔ لوگوں کی خوشیاں آج بھی دھرتی کی زبان یعنی پنجابی سے جڑی ہوئی ہیں۔ جولوک گیت،ماہیے، ٹپے اور بولیاں پنجابی زبان میں ہیں وہ کسی اور زبان میںنہیں ہیں۔نیا تعلیمی سال شروع ہونے کو ہے ،یکساں نصاب کے بعد اگروزیر اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں پرائمری سے پنجابی زبان پڑھانے کو لازمی قرار دے دیں تو ایک طرف ان کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا اور دوسری طرف جب طلبا پرائمری سے پنجابی پڑھیں گے تو وہ اپنی ثقافت اور روایات کو بہتر انداز میں پہچان سکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن