پچھلے پیر کی شام کو پروفیسر سید محفوظ قطب کی کال آئی، میں چونک گیا کہ یا اللہ خیر ہو پروفیسر صاحب اس وقت تو فون نہیں کیا کرتے ۔ان کے منہ سے میاں عبد المجید کا نام نکلا اور میرے ہاتھ سے ٹیلی فون گر پڑا ،میں نے پروفیسر صاحب کی بات پوری نہیں سنی تھی لیکن میرے ہوش و حواس گم تھے ،میں ساری بات سمجھ گیا تھا کہ میاں عبد المجید اب اس دنیا میں نہیں رہے اور اب وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں ۔پھر میں نے ہمت کرکے فون اٹھا یا اور پروفیسر صاحب سے کہا کہ اب میں میاں صاحب کی وفات کی تعزیت تو آپ ہی سے کر سکتا ہوں کہ میری ان سے ملاقات آپ ہی کے ذریعے ہوئی اور پھر آپ ان کو پی سی آئی اے کے اجلاسوں میں مدعو کرتے رہے ۔گزشتہ دسمبر کی پانچ تاریخ کو بھی آپ نے ان کے ساتھ ایک ملن پارٹی رکھی ہوئی تھی لیکن لاہور میں سموگ کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے روک دیا تھا اور پھر طے پایا تھا کہ وہ موسم کھلنے پر مارچ میں لاہور تشریف لائیں گے ۔یہ سوچ کر میرا دل بیٹھا جاتا ہے کہ اب ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکے گی کہ وہ ہم سے کہیں دور جا چکے۔وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہ آیا ۔
میاں عبد المجید سے میرے خصوصی تعلق کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نور بصیر ت کے کالم نگار میاں عبد الرشید کے چھوٹے بھائی تھے ۔میاں عبد الرشید کا یہ کالم نوائے وقت میں باقاعدگی سے چھپتا رہا ہے۔ انتہائی آسان فہم اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم۔نوید کریم چوہدری کے دفتر تراسی بابر بلاک نیو گارڈن ٹائون لاہور میں جب وہ پروفیسر محفوظ قطب صاحب سے ملنے آئے تو یہ کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے تو میں نے انہیں ان کے برادر بزرگ کی شہادت کے واقعات بتائے تھے۔ان کو صبح نو ساڑھے نو بجے شہید کیا گیا تھا ۔میں اسی وقت نوائے وقت کے دفتر پہنچا تھا اور ابھی سیڑھیاں چڑھنے ہی لگا تھا کہ ہیڈ قاصد منیر صاحب نے یہ جانکا ہ خبر سنائی۔ میں ابھی اپنے کمرے میں پہنچا تھا کہ مجید نظامی صاحب دفتر تشریف لے آئے ۔میں روٹین کی میٹنگ کے لیے ان کے کمرے میں گیا تو انہیں میاں عبد الرشید کی شہادت سے آگاہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ چلو میاں صاحب کی رہائش گاہ پر چلتے ہیں وہ اپنی گاڑی گھر واپس بھجوا چکے تھے چنانچہ میں انہیں اپنی چھوٹی گاڑی میں بٹھا کر سمن آباد لے گیا ۔میاں صاحب کا ڈرائنگ روم خون آلود تھا اور ان کے جسد خاکی کو ایک چار پائی پر لٹا دیا گیا تھا ۔میں نے میاں عبد المجید کو یہ آنکھوں دیکھا حال سنایا تو ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ بہر حال پچھلے بیس برس میں ان سے بیسیوں ملاقاتیں رہیں ،سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ فون پر رابطہ ہوا۔آخری گفتگو چار دسمبر کو ہوئی جس میں انہوں نے مجھے مطلع کیا تھا کہ وہ سموگ کی وجہ سے لاہور آنے سے قاصر ہیں ۔
میاں صاحب ایک سیلف میڈ انسا ن تھے، گوجرانوالہ کے ایک نواحی قصبے کلاسکے میں پیدا ہوئے ،یہ آج بھی ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن میاں عبد المجید صاحب کی خصوصی عنایت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول گل و گلزار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ میاں صاحب ان سکولوں میں حسب ضرورت کمرے تعمیر کرواتے ہیں ۔ہونہار بچوں کو وظائف ادا کرتے رہے ہیں۔ ہر سال ان سکولوں میں تقسیم انعامات کی تقریب ہوتی تو وہ کراچی سے لاہور آتے اور یہاں سے اپنے کلاس فیلو ڈاکٹر رفیق احمد کو اپنے ساتھ گائوں لے جاتے جو اس تقریب میں مہمان خصوصی کے فرائض انجام دیتے ۔چار سال قبل ڈاکٹر رفیق صاحب قدرے علیل تھے تو میاں عبد المجید صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے ساتھ ان کے گائوں چلوں ۔میں نے انہیں بہتیرا کہا کہ میں اس اعزاز کے لائق کہاں اوپر سے میری بینائی بھی کمزور تھی، میں نے میاں صاحب سے کہا کہ میں آپ کے گائوں میں ٹھڈے کھاتا پھروں گا لیکن ان کے حکم سے سرتابی ممکن نہیں تھی۔ایک پورا دن میں نے میاں عبد المجید صاحب کے ساتھ گزارا اور میں اس خوشی سے آج بھی سرشار ہوں کہ مجھے اتنے بڑے انسان کی رفاقت میسر آئی ۔میں میاں صاحب کا تعارف کرانا تو بھول ہی گیا ۔وہ ہمارے ملک کے ایک کاروباری ٹائکون تھے۔انہوں نے مٹی کو ہاتھ لگایا تو سونا بن گئی ۔نیشنل فوڈز کے نام سے مسالوں کا کاروبار شروع کیا اور آج یہ کاروبار دنیا کے ہر براعظم تک پھیلا ہوا ہے ۔نیشنل کی مصنوعات پاکستان کی پہچان بن گئی ہیں ۔ان کی ایک مہارت ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں بھی تھی ۔اس کی ڈگری انہوں نے مانچسٹر سے حاصل کی اور پھر واپس آکر کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان سے معمولی ملازمت کا آغاز کیا مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیکسٹائل کی دنیا کا ایک روشن ستارہ بن گئے۔انہوں نے ٹی سی اے کے نام سے ایک کمپنی قائم کی یعنی ٹیکسٹائل کنسلٹنٹ ایسوسی ایٹس۔ یہ کمپنی دنیا بھر سے ٹیکسٹائل کی جدیدمشینری در آمد کرنے میں خصوصی مہارت رکھتی ہے ۔پاکستان کے بڑے بڑے ٹیکسٹائل کارخانوں میں ان کی منگوائی ہوئی مشینری نصب ہے ۔پروفیسر سید محفوظ قطب بتاتے ہیں کہ پہلے دن سے امریکہ اور یورپ کی جن فرموں سے ان کے تعلقات قائم ہوئے وہ آج بھی قائم ہیں ۔نہ انہوں نے کسی سے ناطہ توڑا نہ بیرونی فرموں نے ان سے تعلقات توڑے ۔یہ دو طرفہ اعتماد کی قابل فخر علامت ہے ۔
میاں صاحب انتہائی خوشگوار طبیعت کے مالک تھے،عاجزی اور انکساری کے پیکر ،بات کرتے توبڑے دھیمے انداز سے مگر انتہائی پر تاثیر ،میری ان سے ساری ملاقاتیں ان کے بڑھاپے میں ہوئیں۔ وہ کئی مرتبہ میرے گھر بھی کھانے پر تشریف لائے مگر وہ سادہ خوراک مانگتے تھے اور چند لقمے لے کر کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتے ۔میں سوچتا ہی رہ جاتا کہ اتنی کم غذا کے باوجود وہ اس قدر چوکس کیوں کر ہیں ۔ اس کی وجہ ان کے اندر مضبوط قوت ارادی تھی۔ انہوں نے اپنے اوپر بڑھاپا طاری نہیں ہونے دیا۔ گوناں گوں مصروفیا ت ہر وقت میٹنگ ، چنانچہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ جوانی انہیں الوداع کہہ چکی ہے ۔ان کی آواز نوے سال کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ گونج دار تھی اور ان کی چال ڈھال بھی جوانی سے معمور تھی ۔میرے مرشد مجید نظامی کے ساتھ ان کی انتہائی قربت تھی اور انہی کے کہنے پر میاں صاحب نے کراچی میں نظریہ پاکستان فائونڈیشن قائم کیا تھا ۔وہ آخر دم تک فائونڈیشن کے روز مرہ کے امور کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے ۔دسمبر میں انہوں نے مجھے اپنی سوانح حیات’’ امید آشنا‘‘ کی چند جلدیں بھیجیں کہ میٹنگ سے پہلے میں دوستوں میں تقسیم کردوں ۔ان کتابوں کے ساتھ انہوں نے ایک چھوٹا سا کتابچہ بھی ارسال فرمایا جس کا عنوان’’ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا‘‘ ، تھا ۔ جس میں قائد اعظم کے سنہری اقوال درج ہیں اور ان سے ہر چھوٹا بڑا فیض حاصل کر سکتا ہے ۔اس کتابچہ سے پتا چلتا ہے کہ انہیں قائد اعظم سے کس قدر دلی لگائو تھا ۔ان کی سوانح حیات کو جناب اکرم کمبوہ صاحب نے مرتب کیا ہے اور یہ انسانی عظمتوں کا ایک لا زوال شاہنامہ ہے ۔میاں عبد المجید کی ایک خصوصیت ان کے فلاحی اور خیراتی کام بھی ہیں ۔اپنے گائوں کے سکولوں کے علاوہ بھی وہ فلاحی کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے اور قومی اور معاشرتی مقاصد کے لیے وہ اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور قوم کے نوجوانوں کو ان کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں آگے ہی آگے بڑھنے کی توفیق دے ۔آمین ۔
٭…٭…٭