قصاص اور دیت کے پردے میں بہن اور بیٹیوں کے قاتلوں کی معافی منصفانہ ہے؟


عنبرین فاطمہ
کہنے کو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک فرسودہ رسموں کی بیڑیاں خواتین کے پائوں کی زنجیربنی ہوئی ہیں آج بھی خواتین غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں بڑی تعداد میں خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے ہر سال ریپ کے کئی کیسز سامنے آتے ہیں ،ہر سال خواتین کا عالمی دن بھی بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے لیکن خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔عورت مارچ کے خلاف آوازاٹھانے والے اُس وقت کہاں سو جاتے ہیں جب خواتین کو قتل کیا جاتا ہے ان پرظلم ڈھائے جاتے ہیں ؟اول تو ایسے جرائم پر مبنی کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اگر رپورٹ ہو بھی جائیں تو ان کے فیصلے تاخیر سے آتے ہیں اور فیصلے میں قاتل کو سزائے موت سنا بھی دی جائے تو مقتولہ کے والدین قصاص اور دیت کے قانون کے تحت ان کو معاف کرکے معاملہ رفع دفع کر کے گھر آجاتے ہیں۔ لیکن کسی کی جان  لے لینے پر اسے یا اس کے لواحقین کو ملنے والا انصاف سوالیہ نشان ہی بنا رہ جاتاہے ۔ حال ہی میں نورمقدم کیس کا بھی فیصلہ آیا ہے یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس رہا ہے کہ جس میں فیصلہ جلد آگیا ہے قاتل کو سزائے موت سنا دی گئی ہے لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ  اپیلوں میں اس سزاکے خلاف نظر ثانی فیصلہ  تبدیل نہ ہو جائے۔جہاں تک اس کیس میں قصاص اور دیت کے قانون کی رو سے  لواحقین کا تعلق ہے تو شاید اس میں ایسا اس لئے نہ ہو سکے کیونکہ مقتولہ کے والدنے جس حوصلے کے ساتھ کیس کی پیروی کی ہے، بہت مشکل لگتا ہے کہ مقتولہ کے والدین قصاص اور دیت کے تحت قاتل کو کسی قسم کی کوئی رعایت کا فائدہ اٹھانے دیں ۔
2016 میں غیرت کے نام پربھائی کے ہاتھوں قتل ہونے والی سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے کیس بلا شبہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے ۔کیس کے فیصلے میں اس کے بھائی کو سزائے موت سنائی دیدی گئی لیکن والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت اپنا حق استعما ل کرتے ہوئے مجرم بیٹے کو معاف کرکے کیس کو ہمیشہ کے لئے کلوز کر دیا ۔اسی طرح سے امریکی سفارت کار ریمنڈ ڈیوس کیس میں بھی ہوا مقتول لڑکوں کے والدین نے قصاص کے تحت مجرم ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرکے کیس بند کر دیا ۔اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا قصاص اور دیت کے پردے میں بہنوں  بیٹیوں کے قاتلوں کی معافی کیا والدین کیلئے منصفانہ اقدام ہے؟ہمارا نظام عدل اپنی جگہ کام کام کر رہا ہے مگر  مجرموں کو اس بات کا احساس  ہے کہ جرم کر لو پھانسی کی سزا بھی ہو جائے تو قصاص اور دیت کے تحت آزاد ہو سکتے ہو۔ اس صورت حال میں یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کہیںہم مذہب کا غلط استعمال تو نہیںکرتے؟  قصاص اور دیت کا قانون اپنی جگہ موجود ہے،جسے تبدیل کرنے کی بات یا ایسی سوچ رکھنے کی گستاخی نہیںہو سکتی۔ لیکن اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے متاثرہ فریق ،وکلاء حضرات اور  ہماری عدالتوں کو چاہیے کہ مجرموں کو انکے کیے کی سزا ملے ۔  خواتین کو قتل کردئیے جانے کے عمل میں اسی وقت کمی واقع ہو گی جب  دی گئی سزاؤں کو برقرا ر رکھا جائے گا۔اور پھر مجر م بھی ایسا جرم کرنے سے پہلے سوبار سوچے  گاکہ اسے کسی طور معافی نہیں مل  سکے گی۔
موضوع کی مناسبت سے ہم نے ’’ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ‘‘ سے گفتگو کی انہوں نے کہا کہ قصاص اور دیت کا حکم قرآن کا حکم ہے جس میں ردو بدل کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں قصاص اور دیت کے قانون کی غلط ترجمانی کی گئی ہے قصاص کا مطلب ہے بدلہ جبکہ ہمارے معاشرے میں قصاص کا مطلب معاف کرنا لے لیا گیا ہے ۔اسلامی قوانین میں عورت کی عزت کو اتنا محترم جانا گیا ہے کہ اس کی تحقیر پر معافی نہیں سزا ہی دی جائیگی ۔لیکن قتل کے قانون میں دیت بھی ادا کی جا سکتی ہے لیکن  اس کیلئے جج اور قانون کو مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ سمیحہ راحیل نے مزید واضح کیا کہ اسلامی قوانین میں جان کی بہت زیادہ حرمت ہے لیکن یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ آپ قتل کر لیں معاف کر دیا جائیگا ۔معاشرے نے اپنے غلط تصورات کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔اسلام کے کسی ایک جزو کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا یقینا تباہی کا راستہ ہے اسلئے توہم کہتے ہیں کہ اسلام کے نظام کو کلی طور پر نافذ کرنا چاہیے۔حضورؐ کی ایک حدیث کے مطابق قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے لہذا جب تک قانون سب کے لئے برابر نہیں ہو گا انصاف کا بول بالا نہیں ہو گا ،اثر و رسوخ والے لوگ اسی طر ح سے دھونس سے قصاص اور دیت کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے بڑے سے بڑے مجرم کو بچاتے رہیں گے ۔قصاص اور دیت کا قانون بالکل موجود ہے اور ورثاء معاف بھی کر سکتے ہیں لیکن اپنی آزادانہ مرضی سے ۔ہمارا  معاشرتی نظام جب تک ٹھیک نہیں ہو تا اس قانون کا آسانی سے غلط استعمال ہوتا رہے گا ۔اسلام میں سزائوں کے قوانین اسی لئے سخت ہیں تاکہ معاشرے میں ہونے والے جرائم کو روکا جا سکے اور مجرم کے دل میں ڈر بٹھا یا جائے کہ اگر وہ جرم کرے گا تو اسکو کسی طور معافی نہیں ملے اور ہر کسی کے دل میں یہ ڈر ہونا چاہیے کہ اگر اس نے جرم کیا تو اسکو سزا ملے گی۔ہمارے معاشرے میں جرم کرنے والے اسی لئے دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے عدالتی نظام انصاف کی کمزوریوں سے اچھی طرح آگاہی ہے۔ریمنڈ ڈیوس کے کیس کو ہی دیکھ لیںدن دیہاڑے اس نے دو لوگوں کو نا صرف ہلاک کیا بلکہ سر بازار گولیاں بھی برسائیں اس کے باوجود وہ سزا سے بچ نکلا اور یہاں قصاص اور دیت کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے مقتولین کے ورثاء سے قصاص اور دیت کے تحت مجرم کی بریت کو ممکن بنا لیا ۔سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ ہم اس تصور کی مذمت کرتے ہیں کہ جس میں مجرم کو یہ یقین ہو کہ آپ نے قتل کر لیا ہے اور آپ کو معاف کر دیاجائیگا۔قصاص اور دیت کے قانون کا آزادانہ استعمال ہونا چاہیے دھونس دھاندلی اور پیسے کے زور پر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں تعینات پولینڈ کے سفیر ماچے پسارسکی کے ساتھ نوائے وقت کے رپورٹر فرحان علی انٹرویو کرتے ہوئے

ای پیپر دی نیشن