4ججز بنچ سے الگ،4اختلافی نوٹ


اسلام آباد (اعظم گِل /خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے، مقدمہ کہ سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس پاکستان سمیت 5 ججز کورٹ روم نمبر ایک میں داخل ہوئے چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ جسٹس منیب اختر،جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی لارجربینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی تو چیف جسٹس عمرعطابندیال  نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفرسے کہاکہ دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتائیں کہ عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ( آج) ہر صورت مقدمہ کو مکمل کرنا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایاکہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی درخواست بھی سن کر نمٹائی جائے گی، علی ظفر نے دلائل کاآغازکرتے ہوئے موقف اپنایاکہ وزیراعلی پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنرکو ارسال کی، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا، گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ میں شامل چار ججز نے خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے۔ جس کے بعد جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے،  جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن سے زیادہ تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے؟  وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔ سابق سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے وکیل کا کہنا تھاکہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، علی ظفر صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی لیکن الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہاکہ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ صدر مملکت کا پہلاخط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، لیکن صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا،  وکیل علی ظفر نے کہاکہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے۔ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس میں الیکشن دس سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔ خیبرپختونخوا  صورتحال مختلف ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ خالص آئینی سوال ہے،  سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے،  چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پشاور ہائیکورٹ نے فریقین کو 21 دن کا نوٹس کیوں دیا ؟ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا، جسٹس محمد علی مظہرنے کہاکہ اگر90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہونگے؟ اس دوران عدالت نے آج ہی گورنر خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشتگردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہاکہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں،   علی ظفرنے کہاکہ 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے صرف اعلان نہیں،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔ جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اخترنے کہاکہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا، چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں،  جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں "جی بالکل"،کیا آپ سب ججزکے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسارکیاکہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟  جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہوں گے؟ علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہاکہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں، الیکشن کمیشن مخصوص پولنگ سٹیشنز پر پولنگ ملتوی کر سکتا ہے، اس کیلئے ایمرجنسی ہی لگائی جاسکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو،چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر تاریخ دینا چاہیئے ؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا۔گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا ؟ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے ، جسٹس منصورعلی شاہ نے مزاحاکہاکہ ابھی صرف تاریخ کی بات ہورہی ہے رشتہ نہیں ہوا ، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی، جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ13 اپریل کو 90 دن ختم ہورہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن 90 دن سے پہلے کا شیڈول بھی دے سکتا ہے،  اٹارنی جنرل نے کہا عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے، اگر صدر مملکت کی دی تاریخ پر بھی الیکشن انائونس ہوتے ہوں تو کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں تھا اگر آج بھی شیدو ل جاری ہوتو پھر بھی الیکشن 2 مئی سے پہلے نہیں ہو سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا آئین خاموش ہو تو قانون کے مطابق چلا جاتا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے جس کیبعد چیف جسٹس نے کہا کل سپریم کورٹ بار اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدور کو بھی سنیں گے، صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالت کوبتا یاکہ صدر مملکت کی نمائندگی سلمان اکرم راجہ کرینگے، جس کے بعدسپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں عام انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت آج بروز منگل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا۔ چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کردیا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پانچ رکنی  بینچ تشکیل دے دیا ،23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا گیا جس میں چار ججز کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں ۔ جس کے بعد نئے بینچ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ کو سماعت کرنی تھی لیکن سماعت سے پہلے ہی 4 ججز نے بینچ سے خود کو الگ کرلیا۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس سمیت 5 ججز کورٹ روم نمبر 1 میں داخل ہوئے۔ ریمارکس دیئے کہ جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ، جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، تاہم اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں، آڈیو لیکس پر جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا، بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا،صوبائی اسمبلیاں توڑنیکی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اورمعاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے۔ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کیا صوبائی اسمبلی توڑنیکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں آّڈیو لیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے دونوں جج صاحبان نے اپنی حتمی راے دیدی تاہم میرے بینچ میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں، دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیے،دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آرٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا،ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔جسٹس یحی خان آفریدی نے اپنے نوٹ میں تینوں درخواستوں کا خارج کرتے ہوے کہا ازخود نوٹس اس وقت لیا جاتا ہے جب معاملہ کسی اور عدالت میں زیر سماعت نہ ہو، عدالت کو اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، سپریم کورٹ کا براہ راست کیس سننے سے ہائیکورٹس کی کارروائی متاثر ہوگی میری دانست میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تینوں درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، میرے اس نوٹ کے بعد چیف جسٹس پاکستان خود طے کریں مجھے بنچ میں ہونا چاہیے یا نہیں،

ای پیپر دی نیشن