ایک سادہ سامقدمہ 


آئین پاکستان میں اکثر معاملات تو بہت واضح ہیں جہاں کسی تشریح کی بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ایسے واضح معاملات کو بھی پیچیدہ اور تشریح طلب بنا دیا جاتا ہے کیونکہ آئین پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنا مقصود نہیں ہوتا بس اسی لیے بال کی کھال نکالی جاتی ہے اور گائے ذبح کرنے کے حکم پر چونکہ عمل کرنے کا دل نہیںہوتا تو گائے کے بارے بار بار سوالات کیئے جاتے ہیں ،کیسی ہو؟، رنگ کیسا ہو؟ یہی حال فی الوقت اس مقدمے کاہے جو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ، بہت سادہ سا معاملہ ہے، آئین پاکستان اور مجوزہ قوانین میں درج ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی تو نئی اسمبلیوں کی تشکیل کے لیئے ساٹھ روز کے اندر نئے انتخاب کرانا ہو ں گے لیکن اگر اسمبلیاں اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے ایک دن پہلے بھی توڑ دی جائیں یا تحلیل کر دی جائیںتو ایسی صورت میں نئی اسمبلیوں کا انتخاب نوے روز میںکرنا ہو گا۔ ایک عرصہ سے اس آئینی و قانونی تقاضے پر عمل ہوتا رہا ہے ، ما سوائے اس دور کے جب کسی آمر نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی آئین کو معطل کیا اور پھر نوے دن کا وعدہ کرکے انتخابات نو سال تک موخر رکھے۔ لیکن جب معاملات آئین وقانون کے مطابق ہیں تو پھر ملکی تاریخ میں یہ الیکشن اور ان کے متعلقہ قوانین پر ساٹھ اور نوے روز میں عمل ہوتا رہا۔ تو سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہو گیا کہ اسی آئین و قانون کے ہوتے ہوئے نئے انتخاب کرانا مسئلہ فیثا غورث بن گیا ہے ،یا بنا دیا گیا ہے۔ پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ جمہوری طاقتیں ہی ملک میں انتخابی عمل نہیں چاہتیں ، موجودہ حکومتی اتحاد نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ فی الحال الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ پہلے موجود حکمران نے بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کی اور مختلف حیلوں و بہانوں کے ساتھ انہیں ملتوی کرایا، پھر جب اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور معاملہ جنرل الیکشن کا آیا تو ایسی صورت میں وفاق کے نمائندے گورنر صاحبان نے الیکشن کی تاریخ دینے سے معذرت کر لی۔ وزارت دفاع نے الیکشن کے انعقاد کے لیئے سیکورٹی دینے سے معذرت کر لی، پھر وزارت خزانہ نے الیکشن کے لیئے الیکشن کمیشن کو اخراجات فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کیا۔ پنجاب میں انتخاب کا معاملہ ہائی کورٹ پہنچا تو لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پنجاب کے گورنر اور الیکشن کمیشن باہمی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ دینے کا اعلان کریں لیکن اس حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ آیا تو جو بنچ سماعت کے لئے تشکیل دیا گیا اس کے دو رکن جج صاحبان پر اعتراض اٹھا دیا گیا کہ یہ متعصب ہیں اس لیئے انہیں اس کیس کی سماعت سے خود کو علیحدہ کر لینا چاہیئے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز ، پاکستان پیپلز پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام (ف ) نے باقاعدہ ایک مشترکہ بیان سپریم کورٹ میںجمع کرایا اور اصرار کیا کہ دو جج صاحبان نہ صرف اس مقدمے کی سماعت سے خود کو علیحدہ کریں بلکہ ان تین جماعتوں کے خلاف کسی بھی مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ نہ بنیں ۔ انہی تین حکمران جماعتوں نے ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان سے فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ، عمومی طور پر فل کورٹ میں چونکہ سپریم کورٹ کے تمام کے تمام جج صاحبان شامل ہوتے ہیں اس لئے انتہائی اہمیت کے حامل مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دیا جاتا ہے کیونکہ جب تمام جج صاحبان صرف ایک ہی مقدمہ کی سماعت پر اکٹھے ہو جائیں گے تو ایسی صورت میںباقی زیر التواءمقدمات کی سماعت رک جائے گی بلکہ یوں کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہو گا کہ انصاف کی فراہمی کا عمل انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس وقت باون ہزار سے زائد مقدمات ہیں اور ہر مقدمہ کسی نہ کسی سائل کے لیئے زندگی اور موت جیسی اہمیت رکھتا ہے اس لیئے ایک ایسے مقدمے میں جسے صرف سیاسی بنیاد پر لٹکایا جا رہا ہے اور کچھ درخواست گزار محض الیکشن کے معاملے کو االتواءمیں رکھنے کے لیئے اگر ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں تو یہ کوئی قابل ستائش بات نہیں ہے۔ اب اس معاملے پرانصاف کی فراہمی کا عمل تعطل کا شکار ہے کہتے ہیں قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے لیکن اگر کوئی رکاوٹ آئے تو پھر اسکے راستے میں رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے آئینی اداروں اور عہدیداروں کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہی ہوتا ہے،صدر مملکت نے اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ لیکن انکے اس اقدام جس میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے 9 اپریل کی تاریخ مقرر کردی گئی کی راہ میں آئینی رکاوٹ حائل کر دی گئی۔ یہی معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات بروئے کار لائے جانے کا متقاضی ہوا ہے۔ بات تو یہ ہے کہ اگرصرف گورنرز تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تو پھر وہ کیوں نہیں کرنا چاہ رہے اس لئے کہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندے ہیںاور وفاقی حکومت سر دست الیکشن میں نہیں جانا چاہتی۔ صرف یہی ایک بنیادی حقیقت ہے جسکے باعث ایک سادہ سے مقدمہ کو پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن