غالب و میر


حاسدوں نے اُن کے سیّد ہونے پر بھی شک کا اظہار کیا۔ ایک روایت کے مطابق باپ نے منع کیا۔ ”میر تخلص نہ رکھو۔ ایک دن سیّد ہونے پر شک کا اظہار کیا۔ ایک روایت کے مطابق باپ نے منع کیا۔ ”میر تخلص نہ رکھو۔ ایک دن سیّد کہلانے لگو گے!“مرزا رفیع سودا نے، جو ہجو گوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، ہرزہ سرائی کی 
بیٹھے سوزِ طبع کو جب گرم کر کے میر 
کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر 
میری کے اب تو سارے مصالے میں مستعد 
بیٹا نو گند تو بنے اور آپ کوتھ میر 
قطع نظر اس بحث کے، اُن کا سیّد ہونا یا نہ ہونا، ان کی عظمت کو نہ بڑھا سکتا ہے اور نہ کسی طرح کم کر سکتا تھا۔ وہ امامِ غزل تھے سیّد الشعراءجس نے ہر کسی سے خراج وصول کیا۔ ذوق جیسے بڑے شاعر نے تو باقاعدہ ہتھیار پھینک دئیے۔ میر کا انداز نصیب نہ ہوا۔ 
ذوق یاروں نے بہت روز غزل میں مارا۔ غالب نے بھی تعریف و توصیف کا گلدستہ پیش کیا۔ انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا۔ 
ریختے کے تمہی اُستاد نہیں ہو غالب 
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میربھی تھا۔ 
مرزا پہلے تو اپنے آپ کو اُن کے ہم مرتبہ لے آئے۔ پھر اس کو سُنی سنائی بات قرار دیا۔ بعد میں اس بات کی یہ کہہ کر تلافی کی ”آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ 
میر اور غالب کی شاعری میں صرف ایک قدر مشترک نظر آتی ہے۔ دونوں اردو غزل کو اس مقام پر لے گئے جہاں تک کسی کو رسائی نصیب نہ ہوئی۔ میر نے تو اپنی زندگی میں ہی خود کو منوا لیا۔ غالب کے فولاد میں صلابت ان کی وفات کے بعد آئی۔ ہرچند کہ کچھ لوگوں نے انہیں ہدفِ تنقید بنایا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ آمدِ آفتاب دلیلِ آفتاب ہوتی ہے۔ 
مولانا محمد حسین آزاد کو تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ابتدا میں ہی لکھتے ہیں۔ غالب فارسی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ آبِ حیات میں انہیں جائز مقام نہ دے پائے۔ بقائے دوام کے دربار میں لکھتے ہیں۔ غالب گو پیچھے تھے مگر کسی سے نیچے نہ تھے۔ مولانا کو بخوبی ادراک تھا کہ جو شخص پیچھے رہ جائے وہ کبھی اُوپر نہیں آ سکتا! بعض لوگوں کو بعض اشخاص سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس میں تھوڑا سا قصور خود مرزا کا بھی تھا۔ وہ کافی عرصے تک اپنے فارسی کلام کو اُردو شاعری پر فوقیت دیتے رہے۔ ایک جگہ ذوق کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ 
میں بنیادی طور فارسی زبان کا شاعر ہوں۔ میرا اردو کلام بے رس ہے۔ وغیرہ۔ 
میں نے بنیادی طور پر اپنے آپ کو غزل تک محدود رکھا۔ غالب کا ”کینوس“ بہت وسیع ہے۔ تصوف، فلسفہ، قانون، ندرت خیال، شوخی، شرارت جسارت، بات کرنے کا منفرد انداز تھا۔ اس نے اپنے آپ کو شعروشاعری تک محدود رکھا۔ غالب نے اُردو نثر کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا، اسے ایک نئی سمت عطا فرمائی، انوکھی ہمت اور حوصلہ بخشا۔ ”میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی ہے۔“ 
زندگی میں کئی مقام آتے ہیں۔ کیسی بھی ”سچوایشن“ ہو، غالب کا کوئی نہ کوئی شعر اس پر منطبق ہو جاتا ہے۔ ایک دلچسپ صورت اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ کی دل پھینک شہزادی مارگریٹ نے ایک فوٹو گرافر سے شادی کرنے کا اعلان کیا۔ ہمارے تمام اخبارات نے یہ خبر غالب کے اس شعر کے ساتھ چھاپی۔ 
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصّوری
 تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ 
لارڈ میکالے نے 1894ءمیں جو فوجداری قوانین وضع کئے۔ ان میں ”قانونِ شہادت“ Evidence Act کی روسے گواہ کا Independent ہونا ضروری ہے۔ غالب ڈیڑھ سو برس پہلے ہی کہہ گئے تھے۔ 
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا۔ 
اس شعر میں شوخی، شرارت اور جسارت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بات کرنے کا مرزا کا منفرد انداز تھا۔ قابلِ تعزیر بات بھی اس انداز میں کہہ جاتے کہ فرد جرم لگانا محال ہو جاتا۔ منصور حلاج نے جذب کے عالم میں ”قم باذنی“ کہہ دیا تھا۔ حالانکہ ابن مریم ”قسم باذنی اللہ“ کہتے تھے۔ مروجہ قانون کے تحت اسے سولی پر چڑھا دیا گیا۔ بالکل یہی بات غالب نے اس ڈھنگ سے کہی کہ گرفتاری تک کی نوبت نہ آئی۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن 
ہم کو تقلیدِ تنکُ ظرفیِ منصور نہیں 
حقیقت یہ ہے کہ دونوں عظیم شاعر تھے جنہوں نے مخصوص حالات میں اپنے اپنے رنگ میں لکھا اور خوب لکھا۔ دیگر زبانوں میں بدقسمتی سے میر کے کلام کا اتنا ترجمہ نہیں چھپا جو سہولت غالب کو میسّر آئی۔ اس لیے متفقہ طور پر:
 He is Considered as one of the Top ten poeats of the world arguably the best.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن