جب کسی ملک میں اشیاءاور خدمات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہو تو اسے معاشیات کی اصطلاح میں افراط زر اور عام مفہوم میں مہنگائی کہا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں قیمتوں میں سا لانہ شرح 5 فیصد سے کم ہو تو اسے Inflation Creeping کا نام دیا جاتا ہے اور یہ معتدل افراط زر معیشت کی افزائش نمو کے لیے سود مند ثابت ہو تا ہے مگر بعض حالات میں افراط زر کی یہ شرح 10 فیصد سے بڑھ جاتی ہے اور آگر دنیا میں جنگیں ہو رہی ہوں یا ملکوں میں سیاسی محاذ آرائی اور داخلی معاملات میں بے انتہا شدت ہو جس سے خانہ جنگی اور حکومتی رٹ کے ختم ہونے کے خدشات ہوں تو ایسے میں مختلف معاشی عوامل کی وجہ سے افراط زر کی شرح 100 فیصد سے بھی بڑھ جاتی ہے جسے سرپٹ افراط زر یعنی Inflation Hyper کا نام دیا جاتا ہے صبح شام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے۔ 1921 میں جرمنی میں چیزوں کی قیمتوں میں اسقدر تیزی سے اضافہ ہوتا تھا کہ جیسے ہی فیکٹری ورکرز کو اجرتیں ملتیں وہ فوراً اپنے اہلِ خانہ کو بلا کر رقم ان کو دیتے کہ جائیں اور فوراً خریداری کر لیں کیونکہ شام تک قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں روزانہ اور ہفتہ وار اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ نہ کرے ہم جرمنی اور 1946 میں ہنگری اور 1988 میں سویت یونین اور آج کے زمبابوے اور ایران کی طرح اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں بالکل بے وقعت کر دیں۔ جب سویت یونین قائم تھا تو 2روبل ایک ڈالر کے برابر تھا مگر جب ٹوٹا تو ایک ڈالر راتوں رات 27000 روبل کے برابر ہو گیا۔ حکومت دھڑا دھڑ کرنسی نوٹ چھاپ کر عوام کو دینے لگی مگر کاروبار اور کارخانے بند ہونے پر ضروریات زندگی کی شدید قلت کے باعث لوگ ٹھیلوں پر رقومات لے کر بازار جاتے اور تھیلوں میں چند چیزیں لے کر گھر واپس آتے۔ ایک ایک ڈبل روٹی کی خریداری کے لئے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوتی تھیں، شہنشاہ ایران کے وقت ایرانی کرنسی خاصی مستحکم تھی مگر جس ایرانی کرنسی کی مقدار 10 ہزار ڈالرز کے برابر تھی انقلاب کے بعد 500 ڈالرز کی قوت خرید کے برابر اگی آج پانچ لاکھ ایرانی ریال ایک ڈالر کے برابر ہے۔ ایرانی تیل میں خود کفیل ہیں اور بند معیشت اور پیشواییت کے ڈسپلن میں ہے تو عوام گزارہ کر رہے ہیں وگرنہ ہم جو پٹرولیم مصنوعات باہر سے منگواتے ہیں اور کثیر الجہتی ریاست ہے اور ہمارے دوست امتیاز رفیع بٹ کے مطابق کہ پاکستان کی آبادی 22 کڑور ہے مگر ہم باہر سے 32 کروڑ لوگوں کے لیے درآمدات کرتے ہیں ہماری ملکی اور امپورٹد خوردنی اشیاءافغانستان سے لیکر سنٹرل ایشیا تک جا رہی ہیں اور افغانستان اور ایران کے بارڈر پر طاقتور لوگوں کے زیر سایہ سمگلنگ نے ایسی متوازی معیشت کو قائم کیا ہوا ہے جس سے ریاست غریب تر اور اس کے کارپرداز امیر تر ہو گئے ہیں۔ برآمدات کنندگان ایکسپورٹس پر رعایتیں لیتے ہیں مگر ڈالرز کی بڑی مقدار ملک واپس نہیں لاتے ہیں اور درآمد کنندگان کرپٹ کسٹم حکام کی آشیرباد سے Invoicing Under کے زریعے اربوں کا قومی خزانے کو چونا لگا تے ہیں۔
تو دوسری طرف UNDP کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی ویمپائر اشرافیہ 17 ارب ڈالرز کی مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور زمینوں اور جا ئیدادوں کی الاٹمنٹ اور نوکریوں کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لاکھوں روپے پنشنرز کے ساتھ مفت بجلی، گیس اور دوسری سہولتوں کی وجہ سے ہمارے اخراجات، ہماری آمدنیوں سے زائد رہتے ہیں تو پھر بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے ہم طاقتور اشرافیہ جو حکومت کے کارپرداز ہیں اور ا کے حلیف جو با اثر جاگیر دار اور کارپوریٹ سرمایہ دار او پراپرٹی ٹائیکونز ہیں ان کی مراعات ختم کرنے کی بجائے، گورننس بہتر کرنے کی بجائے ہم عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں تو جسکی وجہ سے وہ افراط زر کی شرح پاکستان کی تاریخ میں زیادہ برس 10 فیصد کم رہی اور زرعی ملک ہونے کے ناطے ہم کھانے کی اشیاءمیں خود کفیل رہے آج 1973 کے بعد افراط زر کی شرح 314 فیصد سے زائد ہو چکی ہے اور اگر ہم خوراک اور توانائی کی قیمتوں کے بغیر یعنی core inflation کی بات کریں تو تعمیر اتی میٹر یل سے لے کر جوتے، کپڑے، الیکٹرانکس اور سٹیشنری، سینٹری اور گاڑیوں، موٹر سائیکلز اور سائیکلز ہر شے کی قیمت 300 فیصد بڑھ گئی ہے اور ابھی مصارفی افراطِ زر تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے آئی ایم ایف کے کہنے پر 170 ارب کے ٹیکس، بجلی، گیس اور پٹرولیم پراڑکٹس میں اضافے کے باوجود سٹیٹ بنک شرح سود میں 200 بیس پوائنٹس مزید بڑھا رہا ہے تا کہ افراط زر کو کنٹرول کیا جا سکے اور لوگ پچتوں کی طرف راغب ہو ں مگر جب لوگوں کی اکثریت کے پاس ضرور یات زندگی پوری کر نے کے لئے پیسے نہیں ہیں وہ کہاں سے پچتیں کر سکتے ہیں اور جو 2 فیصد زائد قوت خرید رکھتے ہیں وہ گولڈ، غیر ملکی کرنسی یا پراپرٹی میں پیسے کی hoarding کر رہے ہیں تو جب ملک میں طلبی افراطِ زر کی بجائے مصارفی افراط زر ہے تو پھر کیسے شرح سود کو پڑھانے سے مہنگائی کم کی جا سکتی ہے اور معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی ہے اور وہ نہ تو ٹیکس نیٹ میں ہے اور نہ ہی بنکنگ کے ذریعے لین دین کرتا ہے جس ملک میں سرکاری، غیر سرکاری اور گرے مارکیٹ زر کی قوت خرید کا تعین کرتی ہو وہاں کیسے سواے بالواسطہ ٹیکسوں کے آمدنی بڑھا ئی جا سکتے ہیں۔
اسوقت حکومت ملکی قرضوں پر 600 ارب سود ادا کر رہی ہے اور 7400 ارب اسکی وصولیاں ہیں۔ جب ہم وصولیوں سے یہ سود ملکی بنکوں اور قومی بچت کے اداروں کے سرمایہ کاروں کو نہیں دے پائیںتو لامحالہ نوٹ چھاپیں گے اس پر آئی ایم ایف کی کوئی قدغن نہیں ہو گی لہذا افراط زر بڑھتا جائے گا جب تک مکمل معاشی ڈھانچہ نہ بدلا جائے۔ شہباز شریف نے 200 ارب کا بچت پلان دیا ہے مگراس سے بڑھ کر 1000ارب کا بجٹ کھانے والی کارپوریشنز کی نجکا ری کرنی ہوگی۔ 18 وہیں ترمیم کے مطابق بہت سی وفاقی وزارتیں اور ان کے ذیلی اداروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرع 2.75 فیصد اضافے سے 41?54 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہم نے پاکستان کے با لادست طبقوں کی 17 ارب ڈالرز کی مراعات ختم نہ کیں، بارڈز سے پاکستانی اشیاءکی سمگلنگ کو نہ روکا ڈالرز کے بیرونی انخلا کو مناسب اقدامات سے نہ روکا، ملک میں ناجائز منافع خوری، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کو نہ روکا اور کسی بھی شعبے میں قیمتوں میں مصنوعی اضافہ اور براہ راست ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ نہ کیا تو 23ویں کے بعد 24 اور 25 ویںآئی ایم ایف کے پیکج سے اس ملک کی اکثریت کی زندگیوں میں بہتری آنے کے امکانات نہیں ہیں
اب بوے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ