رواں برس پاکستان کے 1973ءمیں متفقہ طور پر منظور ہونے والے آئین کے پچاس برس مکمل ہوگئے ہیں اور اسی مناسبت سے پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن نے اتوار کو سندھ اسمبلی میں اس واقعے کا جشنِ طلائی (گولڈن جوبلی) منایا۔ 1973 ءکا آئین کئی حوالے سے پاکستانیوں کی غالب اکثریت کی امنگوں کا ترجمان ہے اور بلاشبہ یہ ایک ایسی دستاویز جسے بنیاد بنا کر آج بھی پاکستان کے زیادہ تر مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ آئین ایک طرف وفاق کو مضبوط بنانے کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب صوبوں کو اختیارات دے کر انھیں مستحکم بناتا ہے۔ علاوہ ازیں، قرآن و سنت کو قانون سازی کی بنیاد قرار دے کر آئین اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، لہٰذا اس کے تمام معاملات انھی حدود کے اندر رہتے ہوئے طے کیے جائیں گے جو قرآن و سنت میں مقرر کی جاچکی ہیں۔
1973ءکے آئین سے پہلے ربع صدی سے زائد عرصے تک ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویز نہیں تھی جس پر ریاست کی تمام اکائیوں کا اتفاق ہو۔ اسی لیے 1956ءاور 1962 ءکے دساتیر میں درج شقیں ریاست کے تمام معاملات و مسائل کے حوالے سے ہماری مکمل رہنمائی کرنے سے قاصر تھیں۔ 1956ءاور 1962ءکے دساتیر سے جڑا ہوا ایک اہم مسئلہ یہ بھی تھا کہ یہ دونوں دستاویزات ریاست کی مختلف اکائیوں کے مابین اختیارات کے توازن کے حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتی تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کا فقدان دکھائی دیتا تھا۔ اختیارات کے اسی عدم توازن کی وجہ سے ریاست کی اکائیاں ایک دوسرے سے مسلسل ناخوش تھیں۔ 1973ءکے آئین میںاتفاقِ رائے کے ذریعے ایک ایسا توازن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو گلے شکوے دور کرنے اور ریاستی اکائیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد دے۔
آئین میں اب سے نصف صدی پہلے جو کمی بیشی رہ گئی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ترامیم کے ذریعے اسے پورا کیا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ پچاس برس گزرنے کے باوجود اس آئین کا مکمل نفاذ کیوں ممکن نہیں ہوسکا۔ اسی عرصے کے دو مواقع ایسے بھی آئے جب 1977ءمیں جنرل محمد ضیاءالحق اور 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف نے آئین کو معطل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آئین کی شق 6 کے موجود ہونے کے باوجود دونوں فوجی آمر بلا خوف و خطر تقریباً ایک ایک دہائی تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں فوجی آمروں کو ایسے سیاسی عناصر بھی مل گئے جنھوں نے ان کے بر سر اقتدار رہنے کے لیے راستہ ہموار کیا اور ان کے ایسے اقدامات کی وجہ سے آئین بری طرح پامال ہوا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ءکے آئین کی تشکیل کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا اور وہی اس آئین کی پامالی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اتوار کو جب پی پی پی کے موجودہ سربراہ اور ذوالفقار بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے سندھ اسمبلی میں ہوئی آئین کی گولڈن جوبلی تقریب میں حصہ لیا تو انھوں نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1973 ءکا آئین بھٹو شہید کی امانت ہے۔ جب سے آئین بنا ہے اس پر ڈاکا مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ آئین ہم نے بنایا تھا اور ہم ہی اسے بچائیں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول زرداری نے مزید کہا کہ آئین توڑنے والی قوتوں کو یہ برداشت نہیں کہ عوام کو ان کے حقوق ملیں، جب تک ہم آپس میں لڑتے رہیں گے فائدہ کوئی اور اٹھاتا رہے گا۔
بلاول زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ ریاست اور اس کے شہریوں کے تعلقات جس ڈور سے بندھے ہوئے ہوئے ہیں اس کا نام آئین ہے۔ ریاستی اور جمہوری اداروں کے بہتر طریقے سے کام کرنے اور عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے یہ ضروری ہے کہ آئین پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے۔ اگر ہم واقعی قومی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں تو پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قوتوں کو اس بات پر متفق ہونا ہوگا کہ کسی بھی صورت میں آئین کی پامالی برداشت نہیں کی جائے گی اور کوئی بھی ایسا اقدام قبول نہیں کیا جائے گا جو آئین سے متصادم ہو۔ اسی عزم کے ساتھ آئین کا جشنِ طلائی قومی سطح پر منایا جانا چاہیے کیونکہ یہ آئین ایک جماعت یا گروہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔
آئین کا جشنِ طلائی قومی سطح پر منایا جائے
Feb 28, 2023