ڈاکٹر عارفہ صبح خان ……تجاہل عارفانہ
شادی کا مطلب ہے ’’خوشی‘‘ یعنی دو انسانوں کا ایک ہو جانا یا رشتہ ازدواج میں بندھ جانا اُن کے لیے ایک بہت بڑی خوشی اور مسرت و انبساط کا دن ہے۔ یہ خوشی اس لیے بھی عظیم ہوتی ہے کہ لڑکے والے بہو بیاہ کر لے آتے ہیں جس سے گھر میں رونق، خوشی اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اُس خاندان کی نسل آگے بڑھتی ہے۔ لڑکی والوں کے لیے بھی یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے کہ اُنہیں بروقت بیٹی کو اُس کے گھر کا موقع ملتا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے والدین کے لیے یہ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح بہن بھائی، نانا نانی، دادا دادی غرضیکہ تمام رشتے داروں کو اکٹھے مل بیٹھنے اور خوش ہونے کا موقع ملتا ہے۔ شادی میں بہت سارے انمول ، یادگار اور خوشگوار لمحے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج شادی کاروبار کا رُوپ دھار گئی ہے۔ کہنے کو ہم نام کے مسلمان ہیں لیکن ہمارے اندر ہندئو چھپا بیٹھا ہے۔ سو یا دو سو سال پہلے برصغیر میں جو ہندؤ مسلمان ہوئے تھے۔ آج زیادہ تر انہی کی اولادیں مسلمان ہیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ عرب سے کوئی ہزاروں یا لاکھوں مسلمان نہیں آئے تھے۔ برصغیر میں مقیم مقامی باشندوں نے ہی مسلمانوں کے طرزِ زندگی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا تھا۔ آج غالباً اکثریت انہی مسلمانوں کی ہے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن ان کے اندر سے وہ ہندئو کبھی نہ نکل سکا جس کی فطرت میں بے ایمانی، نمود و نمائش اور شرک سے بھرے ہوئے کام تھے لہٰذا برصغیر میں بہت سی بدعتیں رائج ہو گئیں جو کسی بھی طرح اسلام کا حصہ نہیں ہیں۔ ان سب بدعتوں نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ دسمبر سے فروری تک ہونے والی شادیوں کے اخراجات کھربوں سے زیادہ ہوئے ہیں۔ ایک مقروض، مفلوک اور بدحال ملک میں شادیاں اس طرح کی جا رہی ہیں جیسے شہزادے شہزادیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے بدترین اور گھنائونی چیز جہیز ہے۔ دوسرے نمود و نمائش اور تیسرے اسلحے کا ناجائز اور جاہلانہ استعمال۔ جہیز کی ہر دور میں مذمت کی گئی ہے لیکن افسوس کہ لڑکے والے بے شرموں کی طرح جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہیز کی لعنت کی وجہ سے آج سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں لڑکیاں پینتیس چالیس سال کی عمر میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ جس کی پانچ یا چھ بیٹیاں ہوں۔ وہ لاکھوں کا جہیز کہاں سے دے۔ مہنگائی میں جہیز دینا غریب کے لیے ہی نہیں، امیر کے لیے بھی مشکل ہے لیکن لڑکے کے گھر والے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے جہیز مانگتے ہیں۔ عام سا جہیز بھی تیس چالیس لاکھ کا بنتا ہے۔ اچھا اور اعلیٰ کوالٹی کا جہیز پچھتر لاکھ سے ایک کروڑ کا بنتا ہے۔ اس پر شادی کے دیگر اخراجات مثلاً چار پانچ دن مسلسل کھانا۔ مایوں، مہندی، نکاح، برأت ، مکلاوہ، ناشتہ، اس کے علاوہ رخصتی کے وقت زردے کی دیگ بھی دینا لازمی ہوتی ہے لیکن جونہی حق مہر کی بات آتی ہے ، لڑکے والوں کو یا تو سانپ سونگھ جاتا ہے یا پھر اسلام یاد آ جاتا ہے۔ اصولاً لڑکی والے اگر شادی پر پچاس لاکھ یا ایک کروڑ خرچ کر رہے ہیں تو حق مہر بھی پچاس لاکھ یا ایک کروڑ مقرر ہونا چاہیے لیکن حق مہر طے کرتے وقت لڑکے والے اسلام کے حوالے دینے لگتے ہیں۔ بڑی مشکل سے رو پیٹ کر ایک دو یا پانچ لاکھ روپے حق مہر پر لڑکے وال مانتے ہیں۔ یہ حق مہر بھی کبھی ادا نہیں کیا جاتا حالانکہ حق مہر اصولاً شادی کی رات ہی ادا کر دینا چاہیے۔ یہ ایک شرعی نکتہ ہے۔ لڑکے کی مائیں سب سے زیادہ مسائل پیدا کرتی ہیں۔ زیادہ تر لڑکا اور اس کا باپ معتدل ہوتا ہے اور جہیز وغیرہ پر بہت اصرار نہیں کرتا لیکن ساسیں لالچی ہوتی ہیں۔ وہ جب بھی لڑکی کے گھر جاتی ہیں لڑکی کی ماں سے علیحدگی میں بیٹھ کر مطالبات شروع کر دیتی ہیں کہ اتنا زیور دیں۔ ساس کو سیٹ اور سونے کے کڑے دیں۔ سارا فرنیچر، کراکری، الیکٹرانکس دیں۔ پہنائی میں چالیس سوٹ دیں۔ لڑکے کو فلاں فلاں چیز دیں۔ خود بری میں لڑکی کو تین چار ہزار روپے کے جوڑے چڑھا دیتی ہیں لیکن لڑکے کے لیے برینڈڈ اور بیش قیمت جوڑوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔ لڑکی کی ماں کو ہر ملاقات یا فون پر منہ پھاڑ کر کوئی نہ کوئی فرمائش کر دیتی ہیں۔ لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کی شادی کی خوشی منانے کے بجائے شدید ٹینشن اور ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ لڑکے کی ماں انتہائی چالاکی سے لڑکی کی ماں پر مسلسل پریشر ڈالتی رہتی ہے۔ اپنے شوہر اور بیٹے کے سامنے یہ عورت بڑی محبتیں لگاوٹیں دکھاتی ہے اور جہیز کے معاملے میں بھی مسلسل یہی بیان جاری کرتی رہتی ہے کہ بھئی ہمارا تو جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں۔ آپ جو کچھ دے رہی ہیں وہ اپنی بیٹی کو خوشی سے دے رہی ہیں۔ وہی سارا جہیز استعمال کرے گی لیکن بعد میں سارا ٹبر وہ جہیز استعمال کرتا ہے۔ لڑکی والے غریب ہوں یا امیر___ وہ درخت سے پیسے نہیں توڑتے۔ یہ لاکھوں روپیہ لڑکی کے ماں باپ ایک ایک پیسہ کرکے جوڑتے ہیں۔ پیسہ ہمیشہ جان مار کر اور محنت مشقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ امیروں کے گھر میں بھی آسمان سے پیسہ نہیں گرتا۔ شادی میں بیشمار گھنائونی اور بدعت بھری رسمیں شامل کر دی گئی ہیں مثلاً چاولوں کو سر پر پھینکنا یا چاولوں کو پائوں سے گِرا کر اُن پر پائوں رکھ کر جانا۔ پائوں سے دودھ گرانا۔ بازوئوں پر کوئی پُھندنے والی پٹی باندھنا۔ ایسی بے شمار ہندووانہ رسمیں جن کا اسلام سے تعلق نہیں۔ دُولہا دولہن کے جملۂ عروسی تک گیٹ سے باہر تک گلاب کی پتیاں بکھیرنا جس پر دولہا دولہن اور رشتہ دار جوتے رکھ کر گزرتے ہیں۔ گلاب جیسی نرم و نازک پتیوں کو یوں روند کر جانا تکلیف دہ بات ہے۔ ناچ گانے کا بہت رواج ہو گیا ہے۔ ناچ گانا بُری بات نہیں لیکن اکثر عورتیں تقریباً نیم برہنہ ہو کر بیہودہ قسم کے رقص کرتی ہیں۔ مرد پاگلوں کی طرح ویلیں دیتے ہیں۔ لڑکا بارات کے لیے ہال میں آنے لگتا ہے یا سہرا بندی کے بعد بارات کے لیے جانے لگتا ہے تو لوگ لاکھوں روپیہ سر سے پھینکیں گے۔ کرایوں پر انتہائی قیمتی گاڑیوں پر بارات لیجا کر اپنے نو دولتیئے ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن اونچی بڑی اور قیمتی گاڑیوں میں کالا پیلا، بھونڈا، ناٹا یعنی چھوٹے قد کا معمولی لڑکا خوبصورت یا بڑا نہیں بن جاتا۔ خاص طور پر شادیوں میں کی جانے والی بے دریغ آتش بازی اور جنونیوں کی طرح ہوائی فائرنگ ایک غیر اخلاقی، غیر قانونی، غیر انسانی فعل ہے۔ ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں راہگیر، پڑوسی، رشتے دار مر جاتے ہیں۔ اسقدر پاگلوں کی طرح ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے جیسے لڑکی بیاہنے نہیں، کسی ملک پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ ون ڈش تو شاید ختم ہی ہو گئی ہے یا ون ڈش کے نام پر آج بھی چار پانچ کھانے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں شادی کو روگ بنا دیا گیا ہے۔ لڑکی کے والدین پر اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ ایک بیٹی کی شادی کے بعد ہی والدین آدھے رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کوئی اخلاقیات ہیں کہ نہیں، قانون تو چلو ہے ہی موم کی ناک…مگر کوئی شرم حیا بھی ہوتی ہے۔