سیّدعارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
روزِمحشر اللہ کی عدالت میں بندہ پیش ہوا ،عاجزی و انکساری سے جھک گیا ۔آنکھ کھول کرادھر ادھر دیکھا ،اُسے خدا نظر نہ آیا ۔ایک بارتڑپا اور پکار اُٹھا ۔اے ربّ کائنات !میں تیرا دیدار چاہتا ہوں ۔آواز آئی ’’اے بندے ! تو میرے دیدار کی تاب نہیں لا سکتا ،تو ایک سورج کو دیکھ نہیں سکتا اُس کی حدت کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ میرا جلوہ کہاں دیکھ پائے گا ۔میں تیرا ربّ ہوں ۔مجھے دیکھنے کیلئے دیدہ و بینا آنکھ کی ضرورت ہے ۔میں تو تیرے سامنے ہوں لیکن تمہیں نظر نہیں آ ؤں گا ۔لیکن میرے بارے میں عقل و شعور رکھنے والا بندہ مجھے دیکھ سکتا ہے ۔میں ہر لمحہ اُ س کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہوں ۔میں دنیا میں بھی تیرے ارد گرد موجود تھا ،میں تو تیری شہ رگ کے بھی قریب تھا ،لیکن تم نے مجھے محسوس نہ کیا ۔تمہیں میرے جاہ و جلال اور میری طاقت کا ادراک نہ ہوا ۔تم نے اتنے برس دنیا میں گذارے لیکن ایک لمحے کو بھی میرا خوف محسوس نہ کیا ۔تم نے میری تعلیمات کو سمجھا اور نہ میرے پیارے حبیب محمد مصطفیٰ ؐکے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی ۔تمہیں معلوم تھا کہ زندگی عارضی ہے ۔ایک نہ ایک دن ملک الموت آئے گا اور تمہیں ابدی زندگی کا مہمان بنا دے گا ۔ میری عدالت میں’’ حقوق اللہ‘‘ کی بابت پوچھا جائے گا ۔لیکن اس کے ساتھ’’ حقوق العباد ‘‘کا حساب بھی دینا ہوگا ۔بیشک ! تم ایک متقی اور پرہیز گار مسلمان تھے ۔لیکن تم نے عبادت بھی کی تو میرے لئے نہ کی ،بلکہ دنیا کو دکھانے کیلئے کی ۔تم نماز پڑھتے تو تمہارے دل و دماغ میں یہی چلتا کہ لوگ تمہیں نمازی اور نیکو کار سمجھیں اور تمہاری تعریف کریں ۔تمہاری نماز میں بھی ریا کاری تھی ، دکھاوا تھا ۔تم نے ابدی زندگی کیلئے کچھ نہ سوچا ، تمہارا سب کچھ دنیاوی جاہ و جلال کو پانے تک محدود رہا ۔ساری زندگی تمہیں حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال نہ آیا ۔تمہیں زندگی بھر اپنے باپ کی عزت و توقیر اور خدمت کا خیال نہ آیا ، جنت تمہارے گھر میں موجود تھی لیکن تم نے اُس ماںکی قدر نہ جانی جس کے قدموں تلے میں نے ’’جنت ‘‘رکھ دی تھی ۔تمہارا پڑوسی تمہارے کردار و عمل سے خود کو غیر محفوظ سمجھتا تھا ،تم اور تمہارے بچے تو عیش و آرام کی زندگی گذار رہے تھے لیکن تمہارا پڑوسی کئی کئی دن روٹی کو ترستا ،تمہیں کبھی توفیق نہ ہوئی کہ اپنے پڑوسی کے دکھوں اور پریشانیوں کو جان سکتے اور اُن کی مدد کرتے ۔ تمہاری اولاد تم سے نا خوش تھی ، تمہارے عزیز و اقارب تم سے نالاں تھے ۔استاد کے احترام سے تم ناآشنا تھے ۔تم زکوۃٰ بھی دیتے تھے لیکن اُس میں بھی دکھاوا تھا ۔تم اپنی دکان اور گھر کے باہر قطاروں میں گھنٹوں لوگوں کو انتظار کرواتے تھے ،اُن کی عزتِ نفس کا جنازہ نکالتے تھے ،پھر گھنٹوں پریشان کرکے ان میں زکوۃٰ کی رقم تقسیم کرتے تھے ۔تم ہر سال حج و عمرہ کیلئے جاتے تھے ۔تاکہ لوگ تمہیں’’ حاجی صاحب‘‘ کا اعزاز بخشیں ۔لیکن تم اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے ہمیشہ غافل رہے ۔اور آج ہمارے پاس حاضر ہو کر ہمارے دیدار اور ہمارے رحمت کے امیدوار ہو ۔بیشک ! ہم رحمن و رحیم ہیں ۔ہمیں تمہاری عبادت ، نماز، روزے ، زکوۃٰ اور حج و عمرے کی ضرورت ہر گز نہ تھی ۔ہماری عبادت کو لاکھوں فرشتے موجود ہیں ۔
انسان کو پیدا کرنے کا مقصد جذبہ خدمت انسانیہ کو فروغ دینا تھا ۔ہم نے اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر انسان کو عقل و شعور کی صورت وہ کچھ عطا کیا کہ جس کی بدولت انسان نے آسمان کی وسعتوں کو بھی تسخیر کیا ۔انسان نے دنیا میں وہ کچھ بنا ڈالا کہ جس کا تصور کوئی انسان نہیں کرسکتا ۔لیکن یہ بھی ہماری عطا تھی ۔ہم نے انسان کو آزمائشوں میں ڈالا ۔اُسے ابدی زندگی میں اچھے اعمال کے عوض ’’’جنت ‘‘ اور’’حوریں ‘‘
تک عطا کرنے کی نوید سنائی ۔اور بد اعمالیوں پر دوزخ کا ایندھن بننے سے بھی ڈرایا۔لیکن اے بندے ! تو نے ہمارے احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔انسانیت پر ظلم ڈھائے ۔
ساتھ ہی اللہ نے حکم دیا تو انسان کے ہاتھ پاؤں بولنے لگے ۔قدرت کے ’’ڈیٹا سٹوریج سسٹم ‘‘ سے انسان کی زندگی کے سبھی پردے اُٹھنے لگے ۔ بندہ اپنے ربّ کے حضور سربسجود ہو گیااور التجا کی ۔اے اللہ ! تو بڑا بے نیاز ہے ۔تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے بندے کو’’ بے پردہ ‘‘نہیں کروں گا ‘‘اب یہاں میرا ’’پردہ‘‘رکھ ،خدا کیلئے میرے ہاتھ پاؤں کو بولنے سے روک دے ۔لیکن رب کائنات نے ارشاد فرمایا کہ ’’نہیں ، اب اپنی زندگی کے شب وروز کی کہانی تو سن ،یہ کہانی صرف تمہیں ہی سنائی جا رہی ہے ۔اُسے کوئی دوسرا سن نہیں پائے گا ۔لیکن سنائی جانے والی داستان سن کر ربّ کائنات جلال میں آ گیا ۔ ارشاد فرمایا ’’میں اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہوں لیکن قرآن پاک میں بیان کردہ ارشادات کی روشنی میں ’’ حقوق العباد ‘‘کی ادائیگی میں کوتاہی معاف نہیں کر سکتا ‘‘مخلوقِ خدا سے روا رکھے گئے ظلم اور زیادتیوں کی معافی متاثرہ فریق ہی دے سکتا ہے۔اگر وہ معاف نہیں کرتا تو ایک ایک کوتاہی کی سزا ضرور ملے گی ۔اور اس سزا کا دورانیہ جرم کی نوعیت کے مطابق ہی ہو گا ۔البتہ سزا پانے کے بعد انسان کو بقیہ زندگی’’جنت‘‘میں گذارنے کا موقع ضرور دیا جائے گا ۔ بندہ دوزخ کی آگ کا تصور کرکے کانپنے گا ، اللہ کے حضور گڑ گڑایا کہ اے میرے پیارے ربّ ! مجھ معاف کردے ۔لیکن اللہ نے فرشتوں کوحکم دیا کہ’’لے جاؤ!اس بندے کو اور اُسے دوزخ میں ڈال دو ‘‘۔
خدا معلوم ہماری کوئی ادا اللہ کو پسند آ جائے اور وہ عظیم ربّ ہمیں ’’جنت‘‘کا مکین بنادے یازندگی میں کوئی ایسی خطا سرزد ہو جائے جس کی بناء پر ہمیں دوزخ کا ایندھن بنا ڈالے ۔بیشک ! وہ عظیم ذات بے نیاز ہے ۔جس کو چائیے نواز دے ۔اور جب چاہے سب کچھ چھین لے ۔کاش! ہم اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی تعلیمات و احکامات پر عمل کرنے پر دھیان دیں ۔اور اپنی زندگی میں ایسے کام کر جائیں کہ روز ِمحشر ہم اللہ کے قہر و غضب سے بچ سکیں اور ہمارا رحمن و رحم خدا جنت ہمارے مقدر میں لکھ دے ۔اس سے پہلے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے ۔ہمیں اپنی اصلاح پر توجہ دینا چاہئے۔دُعا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العبادکی ادائیگی کی بھی توفیق دے ۔اس طرح ہی ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں ۔اچھے اعمال ہی ہماری بخشش کا وسیلہ بن سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔