جشن بہاراں' بسنت اور نمودونمائش کی خرافات

Feb 28, 2023

حکیم سید محمد محمود سہارنپوری


 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
راولپنڈی میں'' اعلانیہ'' بسنت 3 انسانی جانوں کو نگل گئی' 80 افراد کے لہولہان اور 307 افراد کی گرفتاری کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں۔حکومت پنجاب نے'' عوام دوستی'' کے چراغ روشن کرتے ہوئے ایک ڈی ایس پی اور دو تھانوں کے ایس ایچ او معطل کردیئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے معطلی کے قدم سے جانی ومالی نقصان کا ازالہ ہو جائے گا ؟میرے شہر میں پتنگیں اور ڈوریں بنتی اور فروخت ہوتی رہیں مگر کسی نے اسے روکنے اور ناپسندیدہ سرگرمی کے خلاف بند باندھنے کی کوشش نہ کی۔ کچھ لوگ بسنت کا تعلق جشن بہاراں سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ لاہور میں ہرسال بسنت کا الاؤ روشن ہوتا تھا لیکن کبھی فائرنگ اور دھاتی تار استعمال کرنے کی شکایت سامنے نہیں آئی۔ معلوم نہیں کس گروہ نے تلوار جیسی تیز دھات کو ڈور کے ساتھ شامل کر دیا۔ اب یہ ڈور لاہور' فیصل آباد' ملتان اور راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں شریف شہریوں کے گلے کاٹ چکی ہے صرف لہولہان ہی نہیں ڈور موٹر سائیکل سواروں کی زندگی کی ''ڈور'' بھی کاٹ چکی ہے راولپنڈی میں 24 فروری کو بسنت کے نام پر جو خرافات دیکھی گئیں اس پر سوائے افسوس کے ہم اور کیا کرسکتے ہیں ؟چھتوں پر بو کاٹا کا شور ' بے پردگی ' بے ہودہ موسیقی' فائرنگ اور کالم گلوچ کا طوفان بدتمیزی عام رہا۔ مجال ہے کسی ادارے' پولیس یا انتظامیہ نے بسنت سے ایک روز قبل اس ہندوانہ قبیح رسم کو روکنے کی منصوبہ بندی کی ہو۔ ہماری نوجوان نسل اخلاقیات اوردینی اقدار سے دور ہورہی ہے اور ہمارے ''بڑے'' خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ نمود ونمائش' اسراف اور ہندوانہ تہذیب کے پرچار نے نئی نسل کو اندھی گلی کا مسافر بنا دیا ہے۔ کاش ہم برائیوں کے جنم اور پھیلنے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے۔ اسلام کبھی سزا کا حامی نہیں رہا' ہمارا دین سزا سے زیادہ اصلاح پر زور دیتا ہے اور جہاں اصلاح اور تبلیغ سے کام نہ ہو وہاں سزا کا آپشن استعمال کیا جاتا ہے۔  جب قانون کی عمل داری کمزور پڑجائے تو خرافات اور برائیوں کو عام کرنے والوں کو شہہ ملتی ہے۔
ویلنٹائن ڈے 'عورت آزادی اور بسنت دین سے دوری اور ہماری اخلاقی اقدار میں نقب لگانا ہے ہم خرافات کو عام کرنے میں نمودونمائش کا چراغ پورے طمطراق سے روشن کرتے ہیں۔ ہم اپنی جھوٹی شان وشوکت کے لیے اخلاقی روایات کو جس طرح پاؤں تلے روندتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں 24 فروری کی شام قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے پالیسی بیان سے ہوسکتا  ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا  تھا کہ ایک بیوروکریٹ کی صاحب زادی کی شادی میں انہیں ایک ارب سے زائد کی سلامیاں موصول ہوئیں اللہ کریم ہمارے حالات پر رحم کرے آمین!! 
ہمارے دانشوروں ، اہل قلم اور اساتذہ کرام  کا فرض ہے کہ نئی نسل کو بتائیں کہ  ہمارے بردار اسلامی ممالک ترکی اور شام زلزلہ کی تباہ کاریوں کی لپٹ میں ہیں۔ پاکستان میں متاثرین سیلاب اب تک دہائی دے رہے ہیں کیا ایسے ماحول اور ایسے حالات میں ہمارا جشن بہاراں کی آڑ میں خرافات کا ایندھن بننا بنتا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اگر ہم نے اپنی روشن  نہ بدلی تو غیروں کی ثقافتی یلغار ہماری تہذیب کا تاج محل زمین بوس کر دے گی۔
حرف آخر
بھارت کے ایک رئیس زادے نے اپنی صاحب زادی کی شادی کے ساتھ 470 غریب اور مستحق خاندانوں کی بیٹوں کے ہاتھ پیلے کئے۔ کاش ایسی روشن روایت کی شمع ہمارے اردگرد بھی روشن ہو جائے ?!!

مزیدخبریں