محمد رمضان چشتی
پتنگ اڑانے کی تاریخ بہت پرانی ہے، کبھی پتنگ اڑانے کے لئے ساحل سمندر پر یا کھلی جگہوں کا انتخاب کیا جاتاہے، برصغیر پاک و ہند میں پتنگ بازی کی ابتدا بھی سالہا سال پہلے پنجاب میں ہوئی، جب سرسوں کے زرد پھول چارسو لہلہاتے تو پنجاب کے دیہاتوں میں بسنتی رنگ کے ملبوسات میں اہل پنجاب خوشی کے گیت گاتے، اسی مناسبت سے بسنت میلوں کا اہتمام کیا جاتا، طرح طرح کے پکوان پکائے جاتے، ہرطرف خوشی کا سماں دکھائی دیتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بسنت کا تہوار ہرسال منایا جانے لگا۔ اس موقع پر کشتیوں کے مقابلے ہوتے اور موسیقی کے سُر سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہ روایتی تہوار بھی مختلف دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں منایا جانے لگا، لاہور میں ایک عرصہ مقبرہ جہانگیر، منٹو پارک اور اندرون شہر میں یہ دن منایا جاتا تھا پھر آبادی میں اضافہ ہونے لگا اور شہروں میں بلند و بالا عمارات بننے لگیں اوریوں بسنت کا تہوار دن کے ساتھ رات کو بھی منایا جانے لگا، پتنگوں کے ساتھ ریکارڈنگ اور بوکاٹا کا شور ہونے لگا اور پھر منچلوں نے اس کھیل کو دھاتی ڈور سے خونی بنا دیا، اس سے جہاں بجلی متاثر ہونے لگی وہاں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہونے لگا۔ پتنگ لوٹنے والے بھی حادثات کا شکار ہو کر معذور ہونے لگے اور موٹر سائیکل سوارگلا کٹنے سے مرنے لگے بسنت کا یہ روائتی تہوار جب دھاتی ڈور اور فائرنگ سے خونی رنگ اختیار کرنے لگاتو درد دل رکھنے والوں نے اس پر صدائے احتجاج بھی بلند کی، راقم الحروف نے اس حوالے سے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور پھر عدالت نے اس کھیل پر پابندی عائد کر دی۔
کیونکہ بسنت کا تہوار جو دن کے اجالے میں منایا جاتا تھا بسنت نائٹ کی صورت اختیار کر گیا تو اس سے انسانی جانوں کو بھی خطرہ تھا اور ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی تھی، اسی طرح عمارتوں پر رات گئے بلند آواز سے گانوں سے عام شہری کا سکون بھی ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ ایک حلقہ اس تہوار کو منانے کے لئے مختلف دلائل دیتا تھا تو ایک وسیع حلقہ اس خونی کھیل کے خلاف آواز بلند کرتا چلاگیا اور آخر کار چند سال پہلے اس تہوار کے موقع پر پتنگیں اڑانے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی اب بھی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں پتنگ اور ڈور بنانے والوں کے خلاف پولیس اقدامات بھی کرتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے باوجود یہ گھنائونا کاروبار کرنے والے پتنگ اور ڈور بنانے کا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں تمام تر پابندیوں کے باوجود راولپنڈی میں سارا دن آسمان پر پتنگیں بھی اڑتی رہیں اور ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی رہا۔ جس سے کئی اموات بھی ہوئیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ سختی سے کام لے اور پتنگیں اور دھاتی ڈور فروخت کرنے والوں کوگرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رک سکا تو کسی کا لخت جگر، کسی کا سہاگ اس خونی تہوار کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ پولیس کا اس میں اہم کردار ہے اگر یہ تھانہ اپنی حدود میں ان عناصر پر کڑی نظر رکھے تو یہ خونی کھیل نہ صرف رک سکے گا بلکہ ختم ہی ہو جائے گا۔
دور حاضر میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے منفی پہلو اجاگر کرے تاکہ اس کو منانے والے بھی آگاہ ہوں کہ چند منٹوں کی تفریح کے نام پر کسی کے گھر کے چراغ کو بجھا دینا کتنا بڑا المیہ ہے۔ بسنت جو کبھی خوشی کا تہوار تھا اب اس کے برعکس ہے کہ اب یہ کھیل خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے اس کے مکمل خاتمہ تک ہم سب کو ناصرف آواز بلند کرنی چاہیے بلکہ عملی طور پر بھی اس کے لیے حصہ لینا ہوگا لوگوں کو شعور دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ اس خونی کھیل سے وقت بھی ضائع ہوتاہے اور روپیہ بھی ہوا میں اڑ جاتا ہے، میاں ریاض کے پوتے مبین کاشف کی ہلاکت اور دیگر جاننے والوں کے ساتھ صدمات پیش آنے پر دل خون کے آنسو روتا ہے19 سالہ مبین پنجاب کالج کا ہونہار طالب علم تھا آٹھ ماہ پہلے رات ڈیڑھ بجے موٹر سائیکل پر برگر کھانے نکلا اور دھاتی ڈور پھرنے سے اس دنیا سے چلاگیا۔آج بھی پنجاب کے مختلف شہروں میں اس خونی کھیل کے باعث جب انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ کون ہے جوایسا کرنے میں کوتاہی کا ذمہ دار ہے؟
روز پولیس کہتی ہے کہاتنے پتنگ باز گرفتار کر لیے ملزم عدالت میں پیش کیوں نہیں کیے جاتے؟ اگر حکومت اور پولیس چاہے پتنگ بازی تو کیا چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ اگر انتظامیہ اربوں روپے تنخواہ کے بعد عمل نہ کر سکے تو یہ سماجی خرابیاں کیسے ختم ہو سکتی ہیں۔ جو مر رہے ہیں وہ ہم سب کے بچے ہیں کیا یہ پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا آپ نے آئین میں حلف نہیں اٹھایا جان و مال کی حفاظت کا؟
پابندی کے باوجود بسنت سے خونی اموات کا سلسلہ
Feb 28, 2023