سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کہتے ہیں کہ "نیب والے آج کل مجھ پر، فیملی، بھائیوں اور دوستوں پر مقدمات بنا رہے ہیں۔ ہم کیس کریں گے اور مجھے امید ہے کہ عدالتوں سے ہمیں ریلیف ملے گا۔سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ نیب والے دس ارب کی بات کررہے ہیں یہ عجیب سی بات ہے میرے تو پورے خاندان کے اثاثے بھی دس ارب نہیں ہیں۔" قومی احتساب بیورو اگر واقعی یہ عزم ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے اور کرپٹ عناصر کو جیل بھیجنا ہے تو پھر انہیں چاہیے کہ عثمان بزدار کی تختی لگا کر کارروائیاں کرنے والوں پر ہاتھ ڈالے۔ یہ بحث ہو سکتی ہے کہ عثمان بزدار ایک اچھے منتظم تھے یا نہیں، یہ بحث بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بہتر فیصلے کرنے میں ناکام رہے یا نہیں، یہ بحث بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو چلانے کے اہل تھے یا نہیں۔ اس حوالے سے آپ عثمان بزدار پر جتنی چاہیں تنقید کر سکتے ہیں، انہیں غلط ثابت کر سکتے ہیں، ان کا احتساب کر سکتے ہیں، ان کے دور حکومت کو ناکام ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل کی کمی نہیں ہو گی لیکن جہاں تک دس ارب کی کرپشن والی بات ہے اس سلسلے میں جیسے مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور جیسے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں عثمان بزدار کی طرف سے ایسے ہی جواب کی توقع ہے۔
نیب کے لیے سب سے پہلے لازم یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داروں کو تلاش کرے جو حکومت میں ہوتے ہوئے سرکاری دفاتر کا ناجائز استعمال کرتے رہے، کون کون وزیر اعلیٰ کا نام لے کر کام کرواتا رہا، اگر درست انداز میں تفتیش کی جائے تو ناصرف اصل کردار سامنے آئیں گے بلکہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا بھی آسان ہو جائے گا۔ یہ درست ہے کہ ایسے بہت سے کام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہوئے ہیں جن کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے اور ایسے بہت سے کام چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی ہوئے ہیں جن کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے لیکن نہ کبھی پہلے تحقیقات ہوئی ہیں نہ مستقبل قریب میں اس کا امکان موجود ہے۔
اگر قومی احتساب بیورو کرپشن کی روک تھام اور ناجائز ذرائع سے مال بنانے والوں تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے ایل ڈی اے جانا چاہیے وہاں دیکھے کہ گذشتہ پانچ سات برس میں کیا ہوا ہے، کون کیا کرتا رہا ہے، کون کس فائل کے ساتھ آتا تھا اور کس فائل کے ساتھ جاتا تھا، ایریگیشن میں کیا ہوا، بلدیات میں کیا ہوا،زراعت میں کیا ہوا، پنجاب کے تمام شہروں کی ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز کی فائلیں کھنگالیں بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے یو سکتا ہے کی ان میں سے کچھ معتبر اس وقت بھی حکومت کا حصہ ہوں۔ عثمان بزدار تو ایک نمائشی نام ہے کرنے والوں نے بہت کچھ کیا ہے اور یہ سوچا ہے کہ کسی کو علم بھی نہیں ہو گا۔ ظاہر خورشید کیا کرتا رہا ہے، کس کے لیے کرتا رہا ہے، کس سے ہدایات لیتا تھا اسے شامل تفتیش کریں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہ نام ایسے ہی سامنے نہیں آتے اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم سیاسی مخالفت۔یں اچھے بھلے مقدمات کا بھی بیڑہ غرق کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک بڑے، معروف، اثر و رسوخ رکھنے والے ایک صاحب لاہور آئے وہ ایک کسی ایک سرکاری دفتر گئے وہاں سے انہوں نے ایک بڑی ہاو¿سنگ سوسائٹی کی منظوری کروائی یاد رہے کہ رنگ روڈ پر واقع یہ ہاو¿سنگ سوسائٹی دس، بارہ سال سے منظوری کی منتظر تھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکایک یہ کام کیسے ہوا، اس کا فائدہ ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ کس نے اٹھایا، وہ کون سی معروف کاروباری شخصیت ہے جس کے بیٹے کو اس بڑی ہاوسنگ سوسائٹی میں ساتھ آٹھ کنال کے پلاٹس ملے ہیں کوئی تو ہو جو اس زاویے سے بھی تفتیش کرے، کوئی تو ہو جو ان مقدمات کو تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھائے۔ یہ ایک مثال ہے ایسے سینکڑوں کام گذشتہ چار پانچ برسوں میں ہوئے ہیں۔ کیا پنجاب کے اداروں کے پاس وہ ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ برسوں سے رکے کام اچانک کیسے ہو گئے،کام رکے کن بنیادوں پر تھے اور اچانک منظوری کیسے ہو گئی۔ ذرا دیکھیے تو، دماغ کھولیے، ملک و قوم کا فائدہ کیجیے، عثمان بزدار پر کچھ ثابت نہیں ہو گا۔
ایک کاروباری شخص عمرہ کی ادائیگی کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملنے آتا ہے۔ وہ آب زم زم، کھجوریں، پرفیوم اور دیگر اسی طرح کے تحائف وزیراعلیٰ کو پیش کرتا ہے، تصاویر بنتی ہیں، متعلقہ لوگوں تک پہنچتی ہیں اور وہ صاحب اگلے ہی روز ملتان روڈ پر واقع ایک ہاو¿سنگ سوسائٹی کی منظوری لینے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں۔
نیب حکام کو چاہیے کہ وہ عثمان بزدار کی تفتیش کریں لیکن اس کھیل کے اصل کرداروں کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کریں تاکہ ناجائز کام کرنے والوں کی ناصرف حقیقت کھل کر سامنے آئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے مثال بھی بنے۔
خبر ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اسلام آباد کی عدالت نے عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے کیس میں انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے بھی کر دیا ہے۔ لیفٹیننٹ جزل ریٹائرڈ امجد شعیب کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا درج کیا گیا ہے۔ امجد شعیب کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ہے،
لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کی گرفتاری سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر ریاستی اداروں کو نشانہ بنائے، اپنی مخصوص سوچ کے ذریعے نفرت پھیلانے کی کوشش کرے یا پھر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی حالات میں بولنے والوں کو اپنے الفاظ پر غور کرنا چاہیے، پہلے تولنا اور پھر بولنا چاہیے، کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجمانی کے بجائے ریاست کے مفاد کو مقدم رکھنا سب سے اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کی وابستگی کی وجہ سے ریاست کے مفادات کو داو پر نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ تمام افراد جو مختلف ذرائع سے عوام تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نفرت، انتشار کا پیغام پھیلانے کی بجائے برج کا کردار ادا کریں۔ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کام کریں اختلافات میں اضافے کی پالیسی سے گریز کریں۔ جب تک آپ اختلافات ختم کرنے کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک تلخیاں کم نہیں ہوگی تلخیاں کم کرنے کی کوشش کریں نفرت پھیلانے سے گریز کریں۔ پاکستان کو پرامن، مہذب، دلیل سے قائل کرنے والے اور برداشت کرنے والوں کا ملک بنائیں۔