ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
بابا کرمو نے اس سال بھی اپنے دولت خانہ میں پائے کی دعوت دے رکھی تھی۔ جب پہنچا تو پائے ہانڈی میں ہلکی انچ پر تھے۔ بابا کرمو ہمیشہ نعمتوں کا استعمال کرتے اور شکر ادا کرتیہیں۔گھر میں داخل ہوں تو دیکھتے ہی بسم اللہ کہہ کر ہاتھ ملائیں گے گلے لگائیں گے۔ پانی ،چائے یا کوئی چیز کھانے پینے کی دیں گے تو بسم اللہ ضرور پڑھیں گے۔ انکاکہنا ہے کہ اگر دیتے وقت برتن یا کھانے پینے کی اشیا کو اچھی طرح نہیں دھو سکے ، جس سے جراثیم ساتھ رہ جاتے ہیں تو جب ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں تو ان میں شفا شامل ہوجاتی ہے پھر نقصان کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ کھانے کی دعوت میں ایک ہی ہانڈی پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ میرے پاس دوسری ہانڈی بنانے کی سہولت میسر نہیں ہے۔گیس نہیں بجلی نہیں انہیں کوئی شکایت بھی نہیں ۔وہ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ کھاتے ہیں پیتے ہیں۔ اگر آپ ان کے پاس کوئی بیکری آئٹم لے جائیں گے تو نہ یہ خود کھائیں گے اور نہ آپ کو کھانے میں پیش کریں گے۔ جو لے کر اتا ہے اسے واپسی پر ساتھ دے دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے لوگوں نے بیکری اشیا کھانا شروع کی ہیں بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لہذا بیکری اشیا کے کھانے سے اجتناب برتا کریں۔ وہ تازہ فروٹ پسند کرتے ہیں۔انکا کہنا ہے دیسی ہزار درجے اس فارمگ مرغی سے بہتر ہے جس کو کیمیکل غذا اور ٹیکے لگا ہر پالا جاتا ہے۔ اسی طرح دودھ کے بارے میں کہتے ہیں جب سے سائنس نے ترقی کی ہے بھینسوں کو اچھی خوارک کے بجائے کیمیکل کی خوراک اور زیادہ دودھ کے لئے ٹیکے میسر ہیں۔ اس سے بہتر ہے اگر چھ لوگوں کا کنبہ ہے تو بکری رکھیں دیسی مرغیاں رکھیں گھر میں ان کو دینے کے لیے بہت سے چیزیں بچ جاتی ہیں اسی سے یہ کھا پی کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ بکری کو جب اپ کا واک کا موڈ ہوتو اسے بھی باہر ساتھ لے گیا۔ آپ کتے کو بھی تو لے جاتے ہیں۔ اسے ساتھ لے جانے میں شرم محسوس نہ کریں ۔ پھر بکری دو بچے تو دیتی ہی ہے ایک بچے کوقربانی کیلیے اور دوسرے کو پال کر بیچ دیا۔ کہا وہ کام کیا کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔ شرمندہ ہونے کی ایسے کاموں میں ضرورت نہیں۔ اور بہت سے کام ہیں شرمندہ ہونے کے لیے۔ ان کے کرنے سے پرہیز کیا کریں مثلاً جھوٹ بولنا چوری کرنا دوسروں کی غیبت کرنا دوسروں کو تنگ کرنا ایسے کاموں کے کرنے سے شرمندہ ہوا کریں۔ خوش رہنا ہے تو جو کچھ اس ذات نے آپ کو دے رکھا ہے اس پر شکر ادا کیا کریں۔ کسی کے کام آیا کریں ، کسی کا دل نہ دکھایا کریں۔ انسانوں کے ساتھ حیوانوں چرند پرند کا خیال رکھا کریں۔ اس سے آپ کو خوشیاں ملتی ہیں صحت ٹھیک رہتی ہے۔ اپنے معاملات زندگی ٹھیک رکھیں گے تو ملکی حالات بھی ٹھیک ہونگے۔ یہی دنیا اور آخرت میں کام بھی آئیں گے۔ آپ جتنا وقت سیاست کو دیتے ہیں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے ہیں چیخ پکار کرتے ہیں۔ اتنا وقت اپنے آپ پر دیں گے تو ملکی حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جبکہ ہم اپنے اور گھریلو حالات ٹھیک کرتے نہیں ملکی حالات کو ٹھیک کرنے چل پڑتے ہیں۔ کہا ایک مرتبہ چند لوگ اسلام کی تبلیغ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے حضور صلی علیہ وسلم کے پاس آئے پوچھا ہم اسلام کی تبلیغ کرنے جا رہے ہیں ۔ ہمیں کیا تبلیغ کرنی چاہے۔یہ سن کر انہوں نے فرمایا آپ نے اپنے اعمال قول و فعل پر توجہ دینا وہ آپ کے قول و فعل کو دیکھ مسلمان ہونگے۔باتوں سے نہیں۔موجودہ حالات کو دیکھنے سے پتہ چل رہا ہے کہ دنیا کو چلانے والے اور ہیومن رائٹس کے چیمپیئن کون لوگ ہیں جنھیں فلسطینوں کے یہودیوں کے مظالم دکھائی نہیں دے رہے اور پاکستان کے الیکشن اور میڈیا کی آزادی کی انہیں فکر ہے۔ مگر غزہ میں سکولوں اسپتالوں انسانی ابادیوں پر بمباری خون کی ہولی دکھائی نہیں دیتی۔ اسکی انہیں فکر نہیں۔ دکھائی تو ہم مسلمانوں کو بھی فلسطین کے حالات دکھائی نہیں دے رہی ۔ ہم سوگ میں نہیں خوشیاں منا رہے ہیں ۔ ملکی معشت کو کمزور کرنے کے خط لکھ رہے ہیں۔اس لیے کہ ہمارے اپنے کرتوتوں میں مسلمان جیسی خوبیاں نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ مذہبی لوگ اپنی تحقیق کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں کہ دنیا کی سب مخلوقات میں نر جانور مادہ سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں مثلا شیر کو دیکھ لو یا مرغ کو ، گھوڑے کو دیکھ لو یا مور کو، کٹے کو دیکھ لو یا بیل کو۔ حیوانی دنیا میں صرف انسان ہی ایسا حیوانِ ناطق ہے جس میں مرد انتہائی بدصورت اور عورتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ مولانا بہت ہی بھولے بادشاہ ہیں، اور ان کی تحقیق ادھوری ہے۔
سب سے پہلے تو مولانا صاحب کو یہ بتاؤ کہ جنگلی جانوروں میں نر کبھی مزدوری نہیں کرتا، جاب کو نہیں جاتا ، بل ادا نہیں کرتا، بجلی گیس پانی کی فکر نہین کرتا، سکول نہیں جاتا، اپنی فی میل پارٹنر کو ڈنر اور شاپنگ نہیں کراتا۔ جنگل میں شیر کبھی شکار تک نہین کرتا ہمیشہ شیرنی شکار کر کے لاتی ہے اور شیر مزے سے کھاتا ہے یا آرام کرتا ہے۔ کٹا چارہ کھاتا ہے یا دودھ پیتا ہے اور موج کرتا ہے۔ مرغ صرف اذان دیتا ہے اور دھوپ میں اپنے پروں کو چمکاتا رہتا ہے۔ مرغی انڈے بھی دیتی اور انہیں سینچتی بھی ہے۔اور بچوں کو پالتی بھی ہے۔ مور صرف ناچتا ہے اور داد وصول کرتا ہے۔ دوسری بات جنگل میں مادہ جانور اس لئے بھی خوبصورت نہیں ہوتیں کہ وہاں بیوٹی پارلر کی سہولت انہیں میسر نہیں ہوتی اور تیسری بات جنگلی نر جانوروں کی خوبصورتی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی شادی نہیں کرتا۔ انسانوں میں بھی مرد اتنی دیر تک ہی وجیہہ ہوتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی۔بابا کرمو نے کہا جہاں اس قسم کی بحث چل رہی ہو وہاں کے حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے ہم حالات کو ٹھیک کرنے کا سوچتے ہی نہیں ہیں ہم وہ کام کرتے ہیں جو ہمارے کرنے کے نہیں ہوتے ۔یہ کہہ کر دھوپ میں بیٹھ کر تندور کی گرما گرم روٹی سے پائے کھانے۔۔ کنیو مالٹے کھانے اوراللہ کا شکرادا کیا، بابا کرمو زندہ باد کا نعرہ لگایا اور گھر چلا آیا۔