ادارۂ بہبود ایسو سی ایشن کی سیل  2024ء

   ادارہ بہبود کی سیل 24فروری2024ء کو اس مرتبہ گرمانی فائونڈیشن(Gurmani Foundation)  میں منعقد ہو رہی تھی۔  بہت عرصہ پہلے سے اس کی تیاریاں شروع تھیں۔
لڑکیاں سویٹریں بن رہی تھیں۔۔۔۔اور کچھ خواتین دیدہ زیب کرتے جن پر ہاتھ کی کڑھائیوں سے بنائی ہو رہی تھیں۔۔۔۔بلکہ بیڈ کور(Bed cover) ،ٹی کوزی سیٹ۔۔۔۔غرض کہ بہت اہتمام ہو رہا تھا۔۔۔۔یہ سب کچھ چیرٹی کیلئے بنایا جا رہا تھا تاکہ انکم زیادہ ہو اور غریب اور نادار لوگوں کی امداد کی جا سکے۔۔۔۔جذبہ بڑا نیک تھا۔۔۔۔ایسے جذبے میں تو اللہ کی خاص مدد ہوتی ہے۔
حسب معمول میں جب سلمیٰ ہمایوں کی انویٹیشن پر وہاں پہنچی تو سلمیٰ ہمایوں نے میرا خیر مقدم کیا۔
تو اس وقت۔۔۔۔موسم میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔۔۔۔بڑے سے لان میں خوب گہما گہمی تھی۔۔۔۔ ایک طرف سٹال کھانے پینے کے لگے ہوئے تھے۔۔۔۔ دوسری جانب چمکتی ہوئی دھوپ میں تمام سٹالوں پر اشیاء دھوپ کی چمک سے بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔ہنستی مسکراتی خواتین خوش لباس زیب تن کئے ۔۔۔۔ٹولیوں میں بٹی ہوئیں نہ صرف کھا پی رہی تھیں۔۔۔۔بلکہ خریداری میں بھی مصروف تھیں۔
یہ ادارہ غریبوں کی خوشحالی کیلئے کام کرتا ہے۔۔۔۔روز بروز مہنگائی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔  غریب لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے تگ و دو کررہے ہیں۔۔۔۔اس ادارے کی پریذیڈنٹ سلمیٰ ہمایوں ہے۔۔ اور ان کی ایگزیکٹو ممبران کی مدد سے یہ پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔  اس ادارے کے تین شعبے ہیں۔
ہیلتھ، تعلیم اور انکم جنریشن۔
خواتین ہنستی مسکراتی۔۔۔۔گرمانی ہائوس کے بڑے سے لان۔۔۔۔میں خراماں خراماں چلتی ہوئی آرہی تھیں۔۔۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔۔۔۔سال میں تین مرتبہ سیل لگائی جاتی ہے۔۔۔۔جس کی آمدنی سے بچوں کو سکول میں تعلیم دی جاتی ہے۔۔۔۔اور ہیلتھ کو مد نظر رکھتے ہوئے۔۔۔بہبود میں ایک ہسپتال بھی بنایا گیا ہے جہاں پر ہر وقت ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔اور باقاعدہ مریضوں کے مرض کی تشخیص کر کے ادویات دی جاتی ہیں۔
اس سیل میں بہت سی اشیاء کے سٹال لگائے جاتے ہیں۔۔۔۔ہاتھ کی کڑھائی کی اشیاء جو کہ کئی کئی مہینوں سے تیار کی جاتی ہیں۔  وہ مختلف سٹالوں میں نظر آتی ہیں۔  میں۔۔۔۔دیکھ رہی تھی کہ ایگزیکٹو ممبران شانہ بشانہ اس کے ساتھ مدد کر رہی تھیں بعض نے سٹال کھانے پینے کیلئے لگائے ہوئے تھے۔۔۔عصمت خالدایگزیکٹو ممبر آف بہبود چنے حلوہ گھر سے بنا کر لائی ہوئی تھیں۔۔۔اور گرم گرم پوریاں تیار ہو رہی تھی۔۔۔وہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں اور یہ وقت ان کے آرام کا تھا بلکہ جذبہ انسانیت کے تحت وہ یہ کام کر رہی تھیں ۔۔۔۔کچھ ممبران سٹالوں پر کھڑی ہاتھ سے بنی اشیاء فروخت کر رہی تھیں۔  نہ صرف بہبود میں تیار کی ہوئی چیزیں تھیں بلکہ ایک ایسے غریب شخص کی ہاتھ سے پینٹ کی ہوئی تصویریں جوحال ہی میں ایکسیڈنٹ کی وجہ سے معذور ہو گیا تھاعرش سے فرش تک آگیا تھا۔۔۔۔۔مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔  وہیل چیئر پر بیٹھ کر اپنی تصویروں کی نمائیش کر رہا تھا تاکہ اس کی روزی کا ذریعہ چل سکے۔اسی طرح زبیدہ جو بیوہ عورت تھی۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے جیولری بنا کر۔۔۔۔اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔۔۔۔اس کے ساتھ بھی بھرپور ہمدردی اورشفقت کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ اس ملک کی آبادی کے حساب سے بڑے چند ادارے ہیں جو غریبوں کی مدد کر رہے ہیں۔  یہ سب کام ہماری حکومت کے ذمے میں ہونے چاہئیں مگر۔۔۔۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ غریب لوگوں کی حاجت روائی کرے۔۔۔۔وہ صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں۔  فائدہ۔۔۔۔۔۔۔فائدہ۔۔۔۔۔اور فائدہ۔۔
میں اس سیل کے مختلف سٹال کو دیکھ رہی تھی۔
خوبصورت فرنیچر ایک جگہ بیچنے کیلئے رکھا ہوا تھا۔ 
One of kind furnitureجو کہ دیکھنے سے نہایت ہی نفیس تھا۔
ایک سٹا ل پر میٹل کی پلیٹوں کو پینٹ کیا ہوا تھا۔۔۔سٹال میں سورج کی روشنی میں وہ چیزیں جگ مگ جگ مگ کر رہی تھیں۔
ایک سٹال ایثار ٹرسٹ کی جانب سے کافی چیزوں کے ساتھ سجا ہوا تھا۔  جن میں بچوں کے ملبوسات،
غرارے ، فراک،  پارٹی کے کپڑے، کشمیری کڑھائی،پشمینہ کڑھائی، لینن، ٹرالی کور۔۔۔کشمیری ٹی کوزی، بریڈ باسکٹ ،  میز پوش‘ اونی ملبوسات‘ سویٹر، قمیض، مفلر اور بے بی سیٹ، کمبل اور  رضائیاں ۔ کیا کچھ نہیں تھا۔۔۔بہترین چیزیں تھیں۔
غرض کے یہ سیل بڑی کامیاب سیل تھی۔۔۔یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ غریب اورنادار لوگوں کی حاجت روائی کیلئے بہبود کا ادارہ قائم ہے۔۔۔۔ ادارے تو ہیں لیکن بہت کم ہیں ۔۔۔۔کیا یہ ممکن نہیں کہ اس طرح کے اور بھی ادارے قائم ہوں۔۔۔۔ تاکہ بیچارے غریب لوگ کم از کم دو  وقت کی روٹی بال بچوں کو کھلا سکیں۔
ایک بار پھر لکھنا پڑتا ہے کہ۔۔۔۔باہر کے ملکوں میں کلمہ طیبہ نہیں پڑھا جاتا۔۔۔۔مگر وہ خدا کی خوشنودی کیلئے بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔۔۔۔بے سہارا  لوگوںکو  روٹی مہیا کرتے ہیں اور  رہنے کیلئے شیلٹردیتے ہیں تاکہ وہ سکون کی زندگی گزار سکیں اور ایک ہمارا ملک ہے جو رمضان شریف کے آتے ہی کھانے پینے کی اشیاء اتنی مہنگی کر دیتے ہیں۔۔۔۔کہ وہ کئی کئی روز انکے گھروں میں چولہا نہیں جلتا۔۔۔۔۔ رمضان شریف بخشش کا مہینہ ہے۔۔۔۔اور اس مہینے میں تاجر سے لے کر ریڑھی فروش تک چاہتا ہے۔۔۔۔جتنا بھی لوٹنا ہے لوگوں کو لوٹ لیں۔۔۔۔میں سوچتی ہوں تو کیا۔۔۔۔ان کی نمازیں اور  روزے قبول ہو جائیں گے۔۔۔۔؟
اس صورت حال میں اللہ سے ہی دعا کرنی چاہیے کہ ان غریب لوگوں کی مدد کرے۔۔۔۔بندوں سے کوئی امید نہیں۔  ایک انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔  لیکن ابھی بھی چند لوگوں میں خدا خوفی ہے ۔۔۔۔جیسے سلمیٰ ہمایوں اور اس کی ایگزیکٹو ممبران کو خدا خوفی ہے جو اس ادارے کیلئے ان تھک محنت کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ ان جیسے لوگ اگر غریبوں کی امداد نہ کریںتو یہ ملک کب کا تباہ ہو جاتا۔ 

ای پیپر دی نیشن