پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ  مریم نواز کی حکومتی ترجیحات

مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئیں۔ وہ ملک کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔ مریم نواز220ووٹ لے کر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئیں۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ اور واک آئوٹ کے باعث رانا آفتاب کوئی ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ بعدازاں نومنتخب وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گورنر ہاؤس میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا۔ دوسری جانب کراچی میں پیپلز پارٹی کے مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلیٰ سندھ منتخب ہو گئے۔
پنجاب اور سندھ میں اقتدار بڑی خوش اسلوبی سے نگران حکومت سے منتخب حکومت کو منتقل ہو گیا۔پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کے موقع پر اپوزیشن موجود رہتی تو بہتر تھا۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان نے، جو اب سنی اتحاد کونسل کاحصہ بن چکے ہیں، اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ مریم نواز کے مد مقابل وزیر اعلیٰ کے امیدوار رانا آفتاب نے نکتہ اعتراض پر بات کرنا چاہی مگر سپیکر نے اجازت نہیں دی۔ ملک احمد نے کہا کہ آج کا اجلاس صرف وزیراعلیٰ کے چناؤ کے لئے ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین بولنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔اس موقع پر مفاہمت کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے مریم نواز نے اپوزیشن کو منا کر ایوان میں واپس لانے کا کہا جس پر 6لیگی رہنما اپوزیشن کو منانے پہنچ گئے،  مریم نواز نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت کہا کہ اسپیکر صاحب اپوزیشن کو بولنے کی اجازت دیدیں، آپ ہار یا جیت رہے ہیں، مقابلہ کرنا جمہوریت کا حسن ہے۔اس موقع پرنو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا مزیدکہنا تھاکہ میرے دل میں کسی کے لیے انتقام کی خواہش نہیں ہے، جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ان کی بھی وزیراعلیٰ ہوں، سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں۔ 
انتخابات سے قبل، انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد بھی پاکستان کی سیاست میں کشیدگی نظر آتی رہی۔خدشات یہی تھے کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی کشیدگی کی فضا برقرار رہے گی جو کسی بھی صورت جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہو سکتی۔انتقامی سیاست کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔شاید کچھ لوگوں کی خواہش بھی یہی تھی لیکن مریم نواز شریف کی طرف سے جو کچھ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپنے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں کہا گیا اس سے ایسے لوگوں کی خواہشات پر پانی پھر گیا جو سیاست میں کشیدگی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آج ایوان میں ہوتی اور جمہوری عمل کا حصہ بنتی، شور شرابا کرتی تو مجھے خوشی ہوتی۔ اپوزیشن سے کہتی ہوں کہ میرے دروازے  ان کے لیے بھی کھلے رہیں گے کیونکہ میں ان کی بھی وزیراعلیٰ ہوں۔جب آپ انتقام کا نشانہ بن کر کسی عہدے پر پہنچتے ہیں تو تاثر ہوتا ہے کہ آپ بھی انتقام کا بدلہ انتقام سے لیں گے لیکن میرے دل میں کسی سے انتقام لینے کی خواہش نہیں ہے، ظلم اور انتقام کا نشانہ بنانے والوں کی شکر گزار ہوں، سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں، میرا وزیراعلیٰ بننا ہر پاکستانی خاتون کے لیے ایک اعزاز ہے، میں آج سے ہی اپنے منشور پر عملدرآمد شروع کر دوں گی۔
مریم نواز شریف نے منشور پر عمل درآمد کے حوالے سے جیسا کہا ویسا انہوں نے کر کے بھی دکھا دیا جس روز انہوں نے حلف اٹھایا اسی روز انہوں نے اہم مقامات کے دورے کیے جس میں ایک پولیس تھانہ بھی شامل ہے۔انہوں نے ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کیخلاف میری زیرو ٹالرنس پالیسی ہے، کرپشن روکنے کیلیے ایک ٹھوس میکنزم لیکر آئیں گے۔جہاں انہوں نے ایئر ایمبولنس سروس رمضان نگہبان ریلیف پیکیج کی بات کی وہیں ہیلتھ کارڈ کو ری ڈیزائن کر کے جاری کرنے کا بھی اعلان کیا جس سے یہ تصور معدوم ہو گیا کہ نئی حکومت پیش رو حکومت کے عوامی مفادات کے منصوبوں پر عملدرآمد روک دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا رمضان المبارک کے لیے نگہبان کے نام سے ایک ریلیف پیکیج بنایاگیا ہے، مستحقین کو ان کی دہلیز پر ان کا حق پہنچایا جائے گا۔ پنجاب میں مستحقین سے متعلق مکمل ڈیٹا اکٹھا کیا جائیگا۔ فیس کا بوجھ اٹھانیکی سکت نہ رکھنے والے ذہین طلبہ و طالبات کا بوجھ حکومت پنجاب اٹھائیگی، صوبے کے ہر ضلع میں دانش اسکول بنانے کا اعلان بھی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا ادارہ اس وقت بڑے مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے، پولیس سمیت دیگر اداروں میں انٹرن شپ پروگرام شروع کیے جائیں گے، طلبا اوردیگرنوجوانون میں الیکٹرک موٹربائیکس تقسیم کی جائیں گی۔نئے اساتذہ کی بھرتیاں بھی شروع کی جائیں گی، تعلیمی اداروں میں سہولتوں کا فقدان ختم کیا جائیگا، فیصل آباد‘ گوجرانوالہ اورسیالکوٹ میں میٹروبس سروس شروع ہوگی۔ ان کی طرف سے آج سے ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔گویا جیسے ہی مریم نواز وزیراعلی بنی ہیں اس کے ساتھ ہی عوام کو ریلیف ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پنجاب میں یہ بڑی خوشگوار اور موثر و مثبت تبدیلی ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ نون کسی بھی پارٹی کی حمایت اور اتحاد کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی اس کے باوجود مسلم لیگ نون کی طرف سے سولو فلائٹ کے بجائے اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھا گیا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ملک کی طرح بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر سٹیک ہولڈر اوررکن پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ،صوبے کی ترقی کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایوان کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں سیاست میں اختلافات دشمنی اور ذاتیات تک چلے جاتے ہیں ان میں ایسی صورت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب حکومتی پارٹی کے لیے اپوزیشن ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔جواب میں اپوزیشن بھی پوری کوشش کرتی ہے کہ حکومتی امور میں رخنہ اندازی کی جائے۔ انہی حالات سے گزرتے ہوئے انتخابات ہوئے اور خدشات یہی ظاہر کیے جا رہے تھے کہ اپوزیشن اور حکومت میں ٹھنی رہے گی۔حکومت وہی کچھ کرے گی جو روایتاً ہوتا رہا ہے لیکن مریم نواز کی طرف سے اپوزیشن کی طرف نیک نیتی اور خلوص دل سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے۔اپوزیشن سے بھی ایسے ہی جذبے کی امید رکھی جانی چاہیے۔ آج قومی اور صوبائی سطح پر گوناگوں چیلنجز درپیش ہیں ان سے مفاہمت کے ذریعے ہی عہدہ برا ہوا جا سکتا ہے۔مریم نواز شریف بے نظیر بھٹو کے بعد دوسری خاتون لیڈر ہیں جو بڑے عہدے پر پہنچی ہیں جبکہ پنجاب کی حد تک وہ پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہیں۔ یقیناً ان کو اپنی اور پارٹی کی ساکھ کا احساس ہوگا لہٰذا ان کو صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...