اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں، یہاں ہر جج کو اختلاف کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل میں کہا تھانہ اچھرہ لاہور میں درج ہونے والی ایف آئی آر پر تفتیش یہ کہہ کر بند کی گئی کہ ملزموں کو ٹریس نہیں کیاجاسکا، ذوالفقار علی بھٹو مقدمہ میں ملزم نامزد نہیں تھے، دوبارہ تحقیقات کیلئے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا اور تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع کر دی گئی تھی، سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، یہ اہم بات ہے کہ قتل کی پہلی تفتیش بند کیسے ہوئی اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی، مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی، مجسٹریٹ کے آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا، مجسٹریٹ کا آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟۔ منظور ملک نے جواب دیا سپریم کورٹ نے صرف لکھا کہ ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی، شفیع الرحمان ٹریبونل میں احمد رضا قصوری نے بیان میں کہا بھٹو صاحب کا نام دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انہوں نے خود قتل کیا، انہوں نے کہا ہوسکتا ہے بھٹو صاحب کی بات سن کر کسی اور نے قتل کردیا ہو۔ منظور ملک نے جواب دیا چیف جسٹس پر اعتراض کا مطلب ہے کہ پورے بینچ پر اعتراض کیا جا رہا ہے، اس صورتحال میں ایک محاورہ غالب آتا ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پائوں، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا آپ کس کو کہہ رہے ہیں؟۔ منظور ملک نے جواب دیا یہ میں تو نہیں کہہ رہا جس نے محاورہ بنایا اس نے کہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں، یہاں ہر جج کو اختلاف کرنے کی مکمل آزادی ہے، منظور ملک نے جواب دیا یہ صحتمندانہ چیز ہے، اختلاف کرنے کا مطلب ہے آپ زندہ ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جو اختلاف کرتا ہے وہ ہاتھی کے پائوں سے نکل جاتا ہے۔ منظور ملک نے کہا قتل کے کیس میں ہائیکورٹ براہِ راست ٹرائل نہیں کرسکتی، ذوالفقار بھٹوکو نوٹس کیے بغیر ہائیکورٹ کا قتل کیس کا ٹرائل چلانا ایک ہوشیار چال تھی، قانونی عمل کی کھلی خلاف ورزی ہوئی، پہلے ہی دن ذہن بنا لیا گیا کہ بس ملزم آگیا تو ٹرائل ہی کرنا ہے، پہلے ہی دن کہہ دیا گیا شہادتیں طلب کرتے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کو یہ کیس سننا چاہیے تھا؟۔ جب وہ لکھ چکے تھے وہ ناراض ہوگئے وہ پارٹی بن چکے تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں آرڈر شیٹ دیکھ رہا ہوں لگتا ہے جیسے کوئی سول کیس تھا، بھٹو پر جو پہلا چارج لگا اس کو ذرا دیکھیں، اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش ہوئی کہاں ہوئی؟، میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔