’’جن کو پینے کا سلیقہ ہے وہ پیاسے ہیں قتیل ‘‘… (آخری قسط)

Jan 28, 2010

سفیر یاؤ جنگ
سردار محمد اسلم سکھیرا
موجودہ حکمرانوں میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ ان دونوں اصولوں میں سے کسی ایک اصول کی پاسداری کر سکیں۔
جب اغیار مختلف سکیمیں بنا رہے ہیں کہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا کم از کم غیر مستحکم کر دیا جائے تو اس وقت پاکستانی قوم میں یکجہتی کی سخت ضرورت ہے‘ بے وقت راگنی اچھی نہیں لگتی۔ NRO کو ختم کرنا اصولاً صحیح ہے لیکن اس وقت پاکستان جن خطرات میں گھرا ہوا ہے اس وقت یہ کہنا کہ نہ مجھے قلم ختم کر سکتی ہے اور نہ Bayonet ۔ حوصلہ تو اچھا ہے لیکن وقت کے تقاضوں کے مطابق تھیں۔ دوسری طرف سے جواب آئے کہ :
It is testing time for Judiciary
میرے خیال میں وقت کے تقاضے اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اہل مغرب Rule of Law پر زور دیتے ہیں لیکن جب گوانٹاناموبے کی قید کا ذکر آتا ہے تو کوئی مغرب کا جج یہ نہیں کہتا کہ یہ Rule of Law کے برعکس بات ہے۔
جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ظاہری طور پر Rule of Law کیخلاف ہے تو مغرب کا جج Suomoto اختیار کر کے عافیہ کو ظلم ستم سے نجات کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھاتا۔ امریکی جیلوں میں القاعدہ کے سینکڑوں لوگ سی آئی اے کے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں لیکن کوئی امریکی جج یہ نہیں کہتا تھا یہ Rule of Law کیخلاف ہے۔ وہ برٹن رسل جیسے دانشور دنیا سے مفقود ہو چکے جنہوں نے برطانیہ کا نہر سویز پر حملہ کے بعد کہا تھا کہ وہ برطانیہ چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ برطانیہ میں وہ کردار نہیں رہا۔ جگر مراد آبادی نے بھی ایک شعر اسی موضوع پر کہا تھا …؎
کیا کچھ ہو نہیں رہا اس ترقی کے زمانے میں
فقط اک آدمی انساں نہیں ہوتا
اصول اپنی جگہ پر مقدم ہیں لیکن وقت کے تقاضوں کا اگر خیال نہ کیا جائے تو بھی نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔ ایک طرف دشمن آنکھیں دکھا رہا ہے‘ سرحد میں آگ لگی ہوئی ہے‘ بلوچستان Valcano پر کھڑا ہے‘ کراچی جل رہا ہے‘ پنجاب میں اقتدار کی جنگ شروع ہونیوالی ہے‘ پاکستان فوج کو کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ ایٹم آرسنل چھیننے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ پاکستان توڑنے یا غیر مستحکم کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ پاکستان کو بجلی پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ تخریب کاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ قوم میں یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اداروں کیلئے یہ وقت نہیں کہ :
’’تو نے میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘
اگر ادارے آپس میں لڑائی کرتے رہیں گے تو پاکستان کو کون بچائے گا۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ اس وقت بدلے چکانے کی بجائے اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ہر اہم شخص کے ذاتی خطرات کو دور کیا جائے۔ ملک بچانے کیلئے سب سے اہم ادارہ فوج ہے جس نے بیرونی اور اندرونی خطرات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ غیر ملکی طاقتیں آئی ایس آئی کو ختم کرانا چاہتی ہیں۔ مارچ میں آئی ایس آئی کا نیا ہیڈ مقرر ہونا ہے بہتر یہی ہے کہ موجودہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کو دو سال Extension دیدی جائے تاکہ خفیہ پاکستان کا نظام تندہی سے چلتا رہے اور یہ اعلان فوری طور پر کر دیا جائے۔
اسی طرح کمانڈر انچیف نیا جون میں مقرر کرنے کی بجائے موجودہ کمانڈر انچیف کو تین سال کی Extension دیدی جائے اور یہ مسئلہ بھی ختم ہو۔ نواز شریف بیتاب ہیں کہ تیسری بار وزیراعظم پر قدغن ختم کر دی جائے انکی خواہش کیمطابق قانون میں یہ ترمیم بھی کر دی جائے۔ یہ جو فارمولے مائینس ون اور ٹو کے چل رہے ہیں ان کو بھی ختم کر دیا جائے اور موجودہ حکومت پانچ سال پورے کرے اور آٹا‘ چینی‘ مہنگائی‘ بجلی‘ پانی کے مسائل حکومت اور اپوزیشن مل کر حل کریں۔
زرداری صاحب کو بھی قلم اور Bayonet کا خطرہ ختم کیا جائے اور بدستور وہ صدر رہیں اور آئینی تقاضوں کے مطابق پانچ سال صدر رہیں۔ جوڈیشری کا احترام کیا جائے اور حکومت ان کے احکامات پر عمل کرے۔ جوڈیشری بھی جوڈیشل Activism کے جنجال سے نکل کر جو کیسز تصفیہ طلب ہیں انکے فیصلے کا اہتمام کرے۔ ججز کی تعیناتی میں جو آئینی شقیں ہیں ان پر عمل کرے‘ تشریح کو موضوع بحث لانے کی بجائے صدر اور چیف جسٹس مل کر ایک دوسرے سے مشورہ کر کے اہل لوگوں کو جج مقرر کریں۔ ایم کیو ایم والے حضرات بھی ملک دشمنوں کی مدد نہ کریں بلکہ کراچی میں تخریب کار ان کو پکڑیں اور اسلحہ برآمد کریں۔ یکجہتی سے ملک بچانے کی کوششیں کریں۔ یکجہتی قوم میں وقت کا تقاضہ ہے۔ کہیں یہ نہ کہنا پڑے …؎
جن کو پینے کا سلیقہ ہے وہ پیاسے ہیں قتیل
وہ جو کم ظرف تھے اس دور میں میخار ہوئے
مزیدخبریں