آنحضور کی تعلیمات اور عسکری ”تقاضے“

آپ ایک عالمگیر انقلاب کے داعی تھے۔ جس کی بنیاد اس حقیقت پر تھی کہ اللہ کے سوا کوئی (Sovereign) یعنی حاکم مطلق نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خواہشات نفسانی‘ خاندانی پندار کے بت‘ نسل پرستی اور معاشی مفادات کو ہر دم عزیز رکھتے تھے۔ وہ اشاعت اسلام کے راستے میں مزاحم ہوئے۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو مخالفین اسے مٹانے پر تل گئے۔ آپ نے ان کے ساتھ جنگوں میں وہ عسکری نظام دیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اس سے قبل کسی ریاست یا مذہب نے اس طریق کار کو نہیں اپنایا تھا۔ اس عسکری نظام نے وہ راہیں مرتب کیں کہ ایک مستحکم جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
-1 عرب میں فوج کی تنظیم کا معیار اتنا بلند نہ تھا۔ آپ نے باقاعدہ صف بندی کا طریقہ اختیار کیا۔ صف بندی کے بعد آپ خود معائنہ فرماتے اور کم عمر اور ناقابل اعتماد آدمیوں کو فوج سے نکال دیتے تھے۔
آنحصور دشمن فوج کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کے لئے فوجی جاسوس بھی مقرر فرماتے۔ جب کسی غزوہ پر نکلنا ہوتا تو اصل مدمقابل کا نام ظاہر نہ کیا جاتا (سوائے غزوہ تبوک کے) اسلامی لشکر میں ”شعار“ (Watchword) بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تاکہ دوست اور دشمن کی پہچان کی جا سکے۔
-2 آپ نے جنگی موقعوں پر حکمت عملیوں سے کام لیا کہ کفار دبا¶ میں آگئے۔ فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے قریب ”مرالظہران“ کے مقام پر آنحضور نے اسلامی لشکر کو قیام کرنے اور منتشر ہو کر خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور پھر قریش کو لشکر اسلامی سے باخبر اور مرعوب کرنے کے لئے تمام دستوں کو الگ الگ الا¶ روشن کرنے کا حکم دیا۔ جب اہل مکہ نے حد نگاہ تک آگ کے الا¶ روشن دیکھے تو سراسیمہ ہو گئے۔ اور خوفزدہ ہو کر اہل مکہ نے ابو سفیان حکیم بن حرام اور بدیل بن ورقا کو تحقیقات کے بھیجا۔
-3 آنحضور کی ایک اور جنگی حکمت عملی ہمیں غزوہ خندق کے موقع پر نظر آتی ہے آپ نے دفاع کے لئے خندق کھود کر جدید عسکری تقاضوں کو اختیار کرنے پر زور دیا کیونکہ عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لئے مخالفین اسلام کے ذہن میں اس قسم کی صورتحال کا وہم و گمان بھی نہ تھا لہٰذا انہوں نے غیر متوقع طور پر خندق کو دیکھا تو ششدر ہو کر رہ گئے اور وہ نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے کوئی حل تلاش نہ کر سکے۔ اسی غزوہ کے موقع پر مسلمانوں کو قیامت تک کےلئے چند جنگی اصول سمجھا دیئے کہ جدید ترین طریقے اختیار کرنے چاہیں۔ آپ نے فرمایا ”الحرب خدعتہ“ (جنگ چالبازی ہے) غزوہ خندق میں نعیم بن منصور نے کفار کی صفوں میں پھوٹ ڈلوا دی یعنی اگر کوئی قوم برسرپیکار ہو تو اس کے خلاف چالیں جائز ہیں۔ اس غزوہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملی معاملات میں مشاورت عامہ بہت مفید اور ضروری ہے۔ آنحضور نے جنگ کے ہر موقع پر اور ہر مرحلے پر مسلمانوں سے مشورہ لیا اور ان کے مشور ے قبول فرمائے۔
3۔ عسکری حکمت عملی کا ایک اور نمونہ ہمیں فتح مکہ کے موقع پر بھی نظر آتا ہے کہ حضرت عباسؓ نے آپ سے عرض کیا۔ یارسول اللہ ابوسفیان فخر کو پسند کر سکتا ہے (ابوسفیان اس وقت اسلام لاچکے تھے) لہٰذا اسے کوئی امتیاز عطا فرمایئے کہ جس سے اسے اپنی قوم پر فخر کا موقع ملے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کو امان ہو گی“۔ ابوسفیان نے مشرف بہ اسلام ہو کر اور امتیاز خصوصی لے کر جانا چاہا تو آنحضرت نے حضرت عباسؓ سے فرمایا ”ابو سفیان کو وادی کے دہانے پر لے جا کر کھڑے ہو جا¶ تاکہ وہ ایک بار لشکر اسلام کی عظمت کا منظر دیکھ لے اور مسلمانوں کی تعداد سے مرعوب ہونے کے ساتھ ساتھ مکہ جا کر اپنی قوم کو بھی ڈرائے تاکہ کسی کو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہو۔ حضرت عباسؓ ابوسفیان کو وادی کے دہانے پر لے گئے اور اسلام کی فوج ظفر موج ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کی طرح گزرنی شروع ہوئیں ابوسفیان نے مسلمانوں کا یہ کروفر دیکھا تو حضرت عباسؓ سے عرض کیا۔ اے عباسؓ! آج کسی کو اس لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں، یہ خدا کی شان ہے اے ابوالفضل! تمہارے برادر زادہ کی بادشاہت قائم ہو گئی“۔ حضرت عباسؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ ”یہ بادشاہت نہیں نبوت ہے“۔
اسلام کی عسکری شان و شوکت دیکھ کر ابوسفیان بہت متحیر ہوا اور مکہ جا کر ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر باآواز بلند قریش سے کہا کہ ”اے قریش (جناب) محمد ایک ایسا لشکر جرار لے کر پہنچے ہیں کہ جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سو اب نجات کی فکر کرو۔ اور سن لو کہ جو میرے گھر میں داخل ہو جائے گا اسکو امان مل جائے گی۔“
-5 آپ کے عطا کردہ عسکری تقاضوں میں اخلاقی حدود کی پاسداری جنگ کے آداب میں شامل تھی۔ مثلاً عورتوں‘ بچوں‘ ضعیفوں اور راہبوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ آگ میں جلا کر مارنے سے منع فرمایا‘ لوٹ کھسوٹ اور فصلوں کو برباد کرنے پر پابندی لگا دی اور اسے فساد فی الارض قرار دیا۔ کسی دشمن کو مثلہ کرنے یا باندھ کر قتل کرنے کو بھی منع قرار دیا۔ دشمن کے سفیر کے قتل کو بھی جائز نہ رکھا اور کبھی کسی دشمن سے بدعہدی نہ کی۔
جارج برنارڈ شانے آپ کے بارے میں لکھا
”ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے مذہب اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے حضرت محمد اور آپ کے مذہب کے خلاف باضابطہ تحریک چلائی۔ میں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محمد ہستی عظیم تھے اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ“
اگر آج ہم ان کے عطا کردہ عسکری نظام کی پیروی کریں تو یقیناً ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ دوست دشمن کی پہچان کر سکیں اور غیروں پر بھروسے کی بجائے۔ ہمت جرات اور بے باکی کے ساتھ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں اور بہتر پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں۔ ہماری ترقی اغیار پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرکے آگے بڑھنے میں نہیں بلکہ اتنا پیچھے ہٹنے میں ہے کہ آپ کے زمانے تک پہنچا جائے اور ان کی تعلیمات کی پیروی کی جائے اور یہ ہی ہماری اصل میراث ہے۔

ای پیپر دی نیشن