ایک خالص سیاسی کالم!


اللہ اللہ کرتے آخر الیکشن کی آمد آمد دکھائی دینے لگی ہے۔ نگران حکومت کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں گفت و شنید کے دور چل رہے ہیں۔ اس ضمن میں دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دیگر ”غیر پارلیمانی“ سیاسی پارٹیوں سے بھی کچھ مشاورت عمل میں آتی ہے کہ نہیں۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، اسکے حوالے سے تقریباً یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے الیکشن میں اسکا اتحاد ن لیگ سے ہو گا۔ اب ن لیگ اور جماعت اسلامی اسے اتحاد کا نام دیں یا ایڈجسٹمنٹ کا، بات ایک ہی ہے اور کچھ ہو نہ ہو لیکن قادری مارچ اور دھرنے نے ن لیگ اور جماعت اسلامی کو ”ایک پلیٹ فارم“ پر ضرور لا کھڑا کیا تھا جس سے اتحادی اور سیاسی صورتحال خاصی واضح ہو گئی۔
ملک کے ہر کونے اور کوچہ و بازار میں مقامی و قومی سیاستدانوں کی بڑی گاڑیاں آتی جاتی نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ سیاستدان جو سوئے ہوئے تھے وہ بھی جاگ اٹھے ہیں ان سب کو اب اچانک یاد آ گیا ہے کہ عوام کی غمی اور خوشی میں جانا ہے۔ وہی معاملہ ہے اور وہی ماضی، عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے جہاں سیاستدان ریشمی لفاظی، جوشِ خطابت، خوش الحانیاں اور سیاسی مہربانی بروئے کار لا رہے ہیں وہاں عوام بھی بے وقوف بننے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ سن 1988ءسے سیاسی معرکہ آرائی پی پی پی اور مسلم لیگ ہی کے درمیان ہو رہی ہے۔ کراچی میں وہی ایم کیو ایم کا غلبہ اور قبضہ ہے۔ خیبر پی کے میں اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، پی پی پی اور ن لیگ و مسلم لیگ کا وجود ماضی کی طرح موجود ہے۔ بلوچستان میں بھی خیبر پی کے والی صورتحال ہے تاہم بلوچستان میں آزاد امیدواران اور بلوچ رہنماﺅں کا ذاتی اثر و رسوخ بھی نمایاں ہے۔ اندرون سندھ پی پی پی کی برتری تقریباً قائم ہے۔ ہاں البتہ اندرون سندھ پیر پگاڑہ کی مسلم لیگ فنکشنل کچھ ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے اور ان کے ساتھ سندھ کی چھوٹی پارٹیاں بھی اتحادی ہوں گی۔ اسی طرح خیبر پی کے اور پنجاب میں تحریک انصاف بھی میدان میں ہے یقیناً کچھ ووٹ خیبر پی کے اور پنجاب سے تحریک انصاف کے کھاتے میں بھی جائیں گے لیکن جو عروج تحریک انصاف کو سال پہلے ملا تھا اب اس میں نمایاں کمی دکھائی دے رہے۔ ایک دفعہ تو لوگ ”دیوانہ وار“ تحریک انصاف کی طرف لپکے تھے لیکن رفتہ رفتہ عمران خان سے وابستہ امیدیں دم توڑتی گئیں۔ عمران خان نے نئے ساتھیوں کے لالچ میں پرانے کارکنان کو کھو دیا۔ وہ لوگ جو عمران خان کے ساتھ گذشتہ دس سال سے چل رہے تھے، انہیں بڑے لیڈران کی آمد سے فراموش کر دیا گیا تھا۔ پھر ان میں سے کچھ بڑے لوگ آکر چلے بھی گئے۔ اسکی ایک بڑی مثال گوجرانوالہ میں نظر آئی جہاں چودھری محمد انور بھنڈر کے سیاسی جانشین اور ق لیگ کے سابق وزیر مملکت شاہد اکرم بھنڈر پہلے خود تحریک انصاف میں آئے، پھر انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کا بڑا عہدہ دلوایا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ ن لیگ کی طرف چل دئیے اسی لئے گوجرانوالہ سے اچانک تحریک انصاف کو دھچکا بھی لگا سینٹر انور بھنڈر نے ق لیگ تو نہ چھوڑی اور آئندہ ق لیگ کی جانب سے الیکشن لڑنے اور لڑوانے کے درپے ہیں لیکن بھتیجا شاہد اکرم بھنڈر ضرور مقابلے پر آ گیا۔ عمران خان شاید بھول چکے تھے یا اس بات سے آشنا ہی نہیں تھے کہ بھنڈر خاندان نے یونینسٹ پارٹی سے سیاست کا آغاز کیا تھا۔ اسکے بعد کنونشن لیگ، پی پی پی، ضیا لیگ، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں گئے تھے اور پھر آج ”پاپولر سیاست“ ہی کا حصہ ہیں۔ خیر ان سے عمران خان کی جان چھوٹی تو سابق پی پی پی ایم این اے خواجہ محمد اسلم لون کے صاحبزادہ خالد لون نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا تاکہ وہ بھنڈر حلقہ میں قسمت آزمائی کر سکیں لیکن ہوا یہ کہ خالد لون کی آمد سے بھی کئی مخلص ساتھی عمران خان کو چھوڑ گئے۔ ”سیاسی لوگ“ بھی گئے اور اپنے مخلص بھی! ماروی میمن بھی عمران خان پارٹی میں گئی گو وہ سیٹ اور حلقہ کے اعتبار سے اہم نہیں تھی لیکن ق لیگ میں رہ کر اور حکومتی عہدوں اور میڈیا کے سبب اس نے سیاسی قد بُت ضرور بنا لیا تھا۔ بہرحال اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ جب پچھلے دنوں عمران خان پر عروج تھا، تو جماعت اسلامی کے متعدد قائدین و کارکنان بھی تحریک انصاف سے اتحاد کے خواہاں تھے ۔ یہ وہ موقع تھا جو عمران خان نے ضائع کیا۔ اس موقع پر عمران خان ”سونامی خوش فہمی“ میں بہہ گئے اور ایک سودمند اتحاد کا موقع گنوا لیا۔ عمران خان یہ بھی نہیں سمجھ پائے تھے کہ لغاری خاندان اور سابق صدر فاروق لغاری کی بھانجیاں سمیرا ملک اور عائلہ ملک ق لیگ کو انجوائے کر کے تحریک انصاف میں آئی ہیں اور ”انجوائے منٹ“ والے لوگ پاپولر سیاست کرتے ہیں، اعلیٰ اقدار اور اصول و ضوابط کی نہیں۔ خان صاحب نے کچھ دیکھ لیا اور کچھ دیکھیں گے۔
عمران خان نے پل بھر میں شاہ محمود قریشی کو بھی پہلو میں جگہ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ سارا زمانہ جانتا تھا کہ انہوں نے پی پی پی کو اصولوں پر نہیں وزارت خارجہ دوبارہ نہ ملنے پر چھوڑا تھا۔ بہرحال جاوید ہاشمی جیسا سیاستدان پا لینا عمران خان کی خوش قسمتی تھی، اور ہے۔ چار دن شیخ رشید نے بھی اپنی ننھی مُنی پارٹی کا وجود رکھتے ہوئے بھی عمران خان کی تعریف ضرور کی لیکن زمانہ جانتا تھا کہ حُبِ علی نہیں بُغضِ معاویہ ہے۔
اس میدانِ سیاست میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پی پی پی نے لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد گوجرانوالہ، راولپنڈی، اٹک، جہلم اور شیخوپورہ کے شہروں میں کوئی سیاسی کلچر قائم نہیں کیا حتیٰ کہ ان آٹھ شہروں میں پی پی پی نے اپنے نمائندوں کو بھی وہ مراعات نہیں دیں جو دینی چاہئے تھیں۔ ان آٹھ شہروں کا سیاست نامہ کچھ یوں ہے کہ پی پی پی نے تحریک انصاف سے ”ناجائز“ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ پی پی پی کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب میں بھرپور محنت کرلی جائے اور ان آٹھ شہروں (اربن ایریا) سے تحریک انصاف کا راستہ ہموار کیا جائے اور پی پی پی قیادت کا خیال تھا کہ وہ خود ان شہروں میں ن لیگ کو شکست سے دوچار نہیں کر سکے گی اس میں پی پی پی کافی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن اس حکمت عملی سے پی پی پی کی مقامی قیادتیں اضطراب کا شکار ہیں۔ فائدہ ملا تو محض جہانگیر بدر کو، لیکن توقیر صادق کیس میں جہانگیر بدر بھی پی پی پی کی شہرت کیلئے باعثِ نقصان ہی رہے اور آئندہ اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر کیلئے لاہور سے جیتنے کے مواقع دم توڑ چکے ہیں۔ لاہور سے ثمینہ گھرکی کی سیٹ بچانا بھی پی پی پی کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔
جہاں تک ق لیگ کا معاملہ ہے اس کے وہ لوگ رہیں گے جن کو پی پی پی ایڈجسٹمنٹ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل گیا بصورت دیگر سبھی ن لیگ کے روابط میں ہیں، اگر ادھر دال نہ گلی تو تحریک انصاف میں چلے جائینگے۔ بہرکیف ان سب باتوں کے باوجود ن لیگ اور پی پی پی کا مقابلہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی اور ن لیگ مل جائیں تو اچھا ہے (رہی بات ایم ایم کی، تو مولانا فضل الرحمن از خود اسکا حشر نشر کر چکے ہیں)۔ اس اتحاد سے خیبر پی کے اور بلوچستان سے اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے کراچی کی حد تک اے این پی، ن لیگ، مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کو ضرور اتحاد کر لینا چاہئے۔ یہ ملک و قوم اور مثبت سیاست و جمہوریت کیلئے بہت بہتر ہو گا --- بہت بہتر! بہرکیف سیاستدان خوفِ خدا سے کام لیں، نظریہ پاکستان اور جمہوریت اقدار کو فراموش نہ کریں اور لوٹا ازم کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ عوام بھی صاحبان کردار کو مدنظر رکھیں --- صاحبان کردار کو!

ای پیپر دی نیشن