بنگلہ دیش : حسینہ واجد ہوش کے ناخن لیں

Jan 28, 2013

ڈاکٹر حسین احمدپراچہ


پاکستان میں کسی زمانے میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا پروگرام تفسیر قرآن بہت مقبول تھا۔ ہر دینی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ قرآن پاک سے ان کی والہانہ محبت اور ان کے حسن بیان کے بہت مداح تھے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مولانا ابو الکلام آزاد گزشتہ کئی برس تک پرائیویٹ اور سرکاری چینلوں پر اسلام اور شریعت کے حوالے سے دینی پروگرام پیش کرتے تھے جسے بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں یہ باتیں تصوراتی معلوم ہوتی ہیں کہ ایک عالم دین کو دینی معاملات میں ہی نہیں عام معاشی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی اپنے سامعین کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایسا ہی کرتے تھے وہ لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گلی محلے اور اپنے گاﺅں، قصبے اور شہر کو نہ صرف صاف کرنے بلکہ اسے دلہن کی طرح سجانے کی تلقین کرتے۔ وہ لوگوں کا بجٹ بنانے اور گھروں کو خوشی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے سلسلے میں عملی تجاویز دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک صحت مند اور خوشحال خاندان کیلئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدید معلومات سے فائدہ اٹھانے کے طریقے بھی بیان کرتے۔ وہ بے روزگاری کے خلاف جہاد کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے اور حصول روزگار کے عملی منصوبے سامعین کے گوش گزار کرتے۔ انہی وجوہات کی بنا پر حسینہ واجد کی سیکولر حکومت کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے کیونکہ وہ عوام میں بہت مقبول تھے۔
شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد نے ایک بار پھر برسر اقتدار آ کر آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے کے گڑے مُردے اکھاڑنے اور اس زمانے اُن کے والد کے طرزِ سیاست سے اختلاف رکھنے والے بنگالیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کر کے ان کی سماعت کیلئے ایک نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل قائم کر دیا ہے۔ اس ٹربیونل کو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ عدل و انصاف کی این جی اوز ہی نہیں خود اقوام متحدہ اس ٹربیونل کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، دنیا کے ہر فورم کو اس ٹربیونل کے بارے میں تحفظات ہیں۔ جس ٹربیونل کی ساکھ ہی مسلمہ نہیں اس کے کئے ہوئے فیصلوں کو کون مانے گا۔ اسی ٹربیونل نے مولانا ابوالکلام آ زاد پر گھناﺅنے الزامات عائد کئے۔ وہ برسوں پہلے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رکن تھے مگر پھر انہوں نے اپنا الگ طریق وعظ و نصیحت اور نظام درس و تدریس اختیار کر لیا اور عملاً اُن کا جماعت سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ بہرحال 63 سالہ دینی سکالر پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ 1970ءمیں اپنی جوانی میں انہوں نے گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کیا۔ پراسیکیوٹر شاہد الرحمن نے ان پر الزام لگایا کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے تقریباً ایک درجن ہندوﺅں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کئی ہندو عورتوں سے زیادتی کی۔ اس ٹربیونل میں ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل چُننے کا اختیار بھی نہیں۔ ٹربیونل نے مولانا ابو الکلام آزاد کو جو وکیل دیا ہے ان کا نام عبدالشکور ہے۔ انہوں نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے۔ اسی طرح ٹربیونل میں حکومت نے 92 سالہ پروفیسر غلام اعظم سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پر اور بنگلہ دیش جماعت کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی پر بھی جھوٹے مقدمات قائم کر دئیے ہیں۔ پروفیسر صاحب بہت ضعیف العمر ہیں اور ان کی صحت بہت کمزور ہے۔ جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہُوا اس وقت پروفیسر صاحب وہاں موجود ہی نہ تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو اس ظالمانہ ٹربیونل سے کسی انصاف کی توقع نہ تھی اس لئے وہ روپوش ہو گئے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کو کیا علم نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن نے عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے نفرتوں کی جو آگ دہکائی تھی بالآخر خود اسی آگ کی لپیٹ میں آ گئے اور ایک دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ متحدہ پاکستان کی بدقسمتی یہ تھی کہ اسے ایوب خان کی آمریت سے نجات کے بعد تین ایسے لیڈروں سے پالا پڑا جنہیں ملکی و قومی مفاد کا مطلق خیال نہ تھا۔ یہ تینوں اپنے اپنے مفادات کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ یحیٰی خان نے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان نفرت و تعصب کی دیوار کھڑی کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کو اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے پورا ایک سال دیا۔ اس ایک سال کے دوران عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کو ایک غاصب اور ظالم کے روپ میں پیش کیا اور مشرقی پاکستان کے غریب عوام کو یہ باور کروایا کہ ان کو سارے چرکے مغربی پاکستان نے لگائے ہیں۔ یہ ساری انتخابی مہم کذب بیانی اور اخترا پردازی پر مبنی تھی۔ نفرتوں کا یہ بازار گرم کر کے شیخ مجیب الرحمن نے جلسے کئے، جلوس نکالے اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے کسی دوسری جماعت کے کسی بڑے سے بڑے قائد کو بھی جلسہ نہ کرنے دیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے۔ پلٹن میدان میں ان کیلئے ایک بہت بڑے جلسے کا انتظام کیا گیا تھا مگر عوامی لیگ نے یہ جلسہ نہ ہونے دیا۔
شیخ حسینہ واجد کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب غیر جانبدار مصنفین کی جو کتابیں دنیا میں آ رہی ہیں ان میں ستر کی دہائی میں پاکستان کیخلاف بھارتی و بنگالی پروپیگنڈے کا پول کھول دیا گیاہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ نیز مکتی باہنی کے روپ میں پہلے پچاس ہزار اور پھر ایک لاکھ سے زائد بھارتی سپاہی مشرقی پاکستان میں گھس آئے تھے ۔ اب یہ بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اگرتلہ سازش کیس کوئی تصوراتی یا غیر حقیقی مقدمہ نہ تھا یہ ایک ثابت شدہ مقدمہ تھا۔ اس مقدمے کی رو سے شیخ مجیب الرحمن پر بڑے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔
2011ءمیں آکسفورڈ پرنٹنگ پریس کی طرف سے شائع کی جانے والی سرمیلا بوس کی کتاب نے جگہ جگہ بھارتی و بنگالی زہریلے پروپیگنڈہ کا پردہ چاک کیا ہے۔ Deud Recokoing میں کلکتہ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد مصنفہ نے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں زبردست تحقیق کی۔ انہوں نے اس زمانے کے افسران اور سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں، کتابیں کھنگالیں اور ہر طرح کے تعصبات سے پاک ہو کر اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی ہے مثلاً وہ کتاب نے صفحہ 57 پر لکھتی ہیں کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے رقیہ ہال کے بارے میں 1971ءمیں یہ کہانی بہت عام تھی کہ بنگالی طالبات کے اس ہوسٹل پر مارچ 1971ءمیں فوج نے دھاوا بول دیا اور لڑکیوں نے کئی منزلہ بلند عمارت کی کھڑکیوں سے جان بچانے کیلئے چھلانگیں لگا دیں۔ سرمیلا بوس نے لکھا ہے کہ میری تحقیق کے دوران مجھے اس واقعے کا کوئی ایک بھی چشم دید گواہ نہ ملا اور نہ کسی شخص نے میرے سامنے اس واقعے کی تصدیق کی۔ رقیہ ہال کی پروویسٹ بیگم اختر امام نے اپنے بیان میں کہا کہ فوجیوں نے 25 مارچ 1971ءکو دو بار ہاسٹل میں موجود ان کی رہائش گاہ کی بڑے درشت انداز میں تلاشی لی، وہ مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور اسلحہ وغیرہ کی تلاش میں تھے مگر 25 مارچ 1971ءسے پہلے ہی والدین اپنی بچیوں کو اپنے گھروں میں لے گئے تھے۔ جب 25 مارچ 1971ءکو فوج نے میرے گھر پر چھاپہ مارا تو اس وقت ہوسٹل میں صرف سات بچیاں باقی تھیں۔ اسی طرح جہاں آرا کی کتاب میں بھی صراحت کی گئی کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے محسن ہال میں بھی فوج داخل نہ ہوئی تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ اس وقت بھارتی فوج، بھارتی میڈیا، بھارتی حکومت مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی بھرپور مدد کر رہے تھے۔ بھارتی زہریلے پروپیگنڈے کے جواب کیلئے پاکستان کے پاس کوئی مو¿ثر انتظام نہ تھا۔ ادھر چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کی راتیں جاگتی اور دن سوتے تھے۔ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں اور ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں ایسے خیالات کو ہَوا دی تھی جن کا لازمی نتیجہ دوطرفہ جدائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
اس وقت پاکستان ہی نہیں کئی اور برادر ملکوں کی حکومتیں در پردہ بنگلہ دیش کو یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ گڑے مُردے نہ اکھاڑے۔ بات چل نکلی تو بہت دور تک جائیگی۔ پھر اگرتلہ سازش کیس بھی ری اوپن ہو گا۔ پھر پاکستان کو اگر کسی بین الاقوامی عدالت جانا پڑا تو وہ جائے اور ثابت کریگا کہ مجیب الرحمن انتخابات سے پہلے ملک سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے تھے۔ دوسرے دیکھنا یہ ہو گا کہ بھارتی فوج کے حملے کے دوران مشرقی پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت کرنیوالے ملک کے وفادار تھے یا بھارتی فوجوں کو راستہ دکھانے والے اور اپنے ہی ملک کی اہم ترین تنصیبات پر حملے کروانیوالے دیس کے وفادار تھے۔ آج 43 برس کے بعد گڑے مُردے اکھاڑنے سے محترمہ حسینہ واجد کو ندامت اور ہزیمت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔

مزیدخبریں