بھارت نے وولر بیراج پر مذاکرات ملتوی کرتے ہوئے اپنے سیکرٹری پانی و بجلی کو پاکستان میں مذاکرات سے روک دیا ہے۔ وولر بیراج پر پاکستان بھارت مذاکرات کا تیسرا دور آج 28 جنوری کو پاکستان میں ہونا تھا تاہم پاکستان بھارت کشیدگی کا بہانہ بنا کر بھارت نے اپنے سیکرٹری پانی و بجلی کو پاکستان آنے سے روک دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی وولر بیراج پر پاکستان بھارت مذاکرات ملتوی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب بھارت نے دو پاکستانی سفارت کاروں کو جے پور ادبی میلے میں شرکت کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی اور وولر بیراج پر مذاکرات ملتوی کرنا اور پاکستانی سفارت کاروں کو جے پورادبی میلے میں شرکت سے روکنا اسکی واضح مثال ہے۔ اس سے قبل بھارت میں موجود پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کو بھی واپس بھجوا دیا گیا تھا اور بھارت میں انکے تمام پروگرام منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے گزشتہ روز بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بھارت کشیدگی کے تناظر میں ہی یہ باور کرانا ضروری سمجھا کہ ہماری دوستی کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے کنٹرول لائن پر کشیدگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایل او سی پر ہمارے فوجیوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کی پریڈ کے موقع پر ایک ایسے دور مار ایٹمی میزائل کی بھی پہلی بار نمائش کی گئی جو چین میں کسی بھی جگہ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ پانچ ہزار کلو میٹر تک مار کرنیوالا بھارت کا اگنی میزائل اپنے اہداف کو یورپ تک بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے جدید ترین ایٹمی اور روایتی اسلحہ کے ڈھیر لگانے کا اصل مقصد تو پاکستان کی سالمیت پر شب خون مارنے کا ہی ہے مگر اسکے توسیع پسندانہ جنگی عزائم سے اب علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے مگر یہ جان کر بھی کہ اسکی معمولی سی حماقت ایٹمی جنگ کی صورت میں پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے‘ بھارت پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھانے سے باز نہیں آرہا اور اسکے باوجود کہ ہمارے حکمران بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے اور گزشتہ روز بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم کو مبارکباد کا پیغام بھجواتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کیلئے حکومتی عزم کا اعادہ کیا‘ بھارت اسکے جواب میں سوائے تلخی اور سرد مہری کے ہمیں کچھ نہیں دے رہا جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ہماری اندرونی کمزوریوں کو بھانپ کر ہم پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کیلئے تلا بیٹھا ہے۔ یقیناً اس صورتحال کو دیکھ کر ہی بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی پوری دردمندی کے ساتھ پاکستان سے اپنا داخلی انتشار ختم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں جن کے بقول بھارت پاکستان کے داخلی انتشار سے فائدہ اٹھا کر کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ صورتحال ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ اس ماہ کے آغاز ہی میں کراچی اور کوئٹہ میں بدترین دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کے پروگرام سے ملک میں امن و امان کی صورتحال گھمبیر ہونے کا تاثر پیدا ہوا تو اسکے ساتھ ہی بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور جب بھارتی فوجیوں کی بلااشتعال فائرنگ سے پاکستانی جوان کی شہادت پر پاکستانی افواج نے جوابی کارروائی کرکے بھارتی فوجیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا تو اس پر بھارتی وزیراعظم‘ وزیر خارجہ اور آرمی چیف نے الٹا پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرکے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے تو اسی معاملہ کو جواز بنا کر پاکستان کا دورہ کرنے سے بھی انکار کر دیا جبکہ بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے پاکستانی کرکٹروں‘ ہاکی کے کھلاڑیوں اور خواتین کرکٹروں کا بھی بھارت کے اندر کھیلنا ناممکن بنا دیاگیا اور انہیں جان سے مارنے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیکر پاکستان واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ اسکے باوجود ویمن کرکٹ ورلڈ کپ میں شمولیت کیلئے پاکستان نے اپنی خواتین کی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھجوا دیا ہے جس کا مقصد پاکستان بھارت کو کشیدگی کی فضا کو ختم کرنے کا پیغام دیناہے مگر بھارت ہماری ہرخیرسگالی کا جواب جارحانہ عزائم کے اظہار کی صورت میں دیتا ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھارت نے تقسیم ہند کے وقت سے ہی پاکستان کے آزاد اور خودمختار وجود کو دل سے قبول نہیں کیا اور وہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ بھی بھارت نے اسی نیت کے تحت خود پیدا کیا اور اسکے بڑے حصے پر بزور اپنا تسلط جما لیا اور پھر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے یو این قراردادوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔
کشمیر پر بھارتی قبضے کا مقصد پاکستان کو اسکے پانی سے محروم کرکے بے آب و گیاہ ریگستان میں تبدیل کرنے اورپھر ایک کمزور پاکستان کو ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کا ہی تھاچنانچہ بھارت اب تک اس مقصد کی جانب ہی گامزن ہے۔ وہ ایک جانب تو کشمیری عوام پر ظلم و تشدد کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے انکی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور دوسری جانب پاکستان پر دراندازی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اسے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی حمایت سے بھی روکنے اور جہاد کشمیر کو دہشت گردی تسلیم کرانے کی سازشوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کو متنازعہ اور پھر اٹوٹ انگ بنانے کی بھارتی سازشوں کو بھانپ کر بھی یو این قراردادوں کی روشنی میں کشمیر کی آزادی کیلئے کبھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا اور پانی کے تنازعہ کے تصفیہ کیلئے عالمی بنک کے ذریعے 1960ءمیں طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ پر عملدرآمد میں بھی کبھی پیش رفت نہیں کی‘ اگرچہ اس معاہدہ میں تین دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کرنے کے حق کو بھی ہماری عاقبت نااندیش قیادتوں اور بیوروکریسی کے مفاد پرست متعلقہ افسران نے خود ہی ضائع کردیا۔ بگلیہار ڈیم کا کیس پاکستان اس وقت عالمی بنک میں لے کر گیا‘جب بھارت اس ڈیم کی تعمیر مکمل کر چکا تھا۔ یہی صورتحال بھارتی کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے سامنے آئی جس کی آدھی سے زیادہ تعمیر ہو گئی تو پاکستان نے انگڑائی لی۔ اب پاکستان کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے بھارت کیخلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے جبکہ وولر بیراج پر جاری پاکستان بھارت مذاکرات کا دروازہ اب خود بھارت نے کنٹرول لائن کشیدگی کا بہانہ بنا کر بند کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں توبھارت پاکستان کو اسکے پانی سے محروم کرنے کی سازش کی تکمیل کرتا نظر آتا ہے جس کے بعد پاکستان کی زرخیز دھرتی کا جو نقشہ بنے گا اس کا تصور کرکے بھی وحشت سی آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری سالمیت کو کمزور بنانے کے درپے ہے اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کو خود بڑھاوا دیکر ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق اس کا بھی پاکستان ہی کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کیا ہمیں اپنے اس سازشی‘ مکار اور منافق دشمن کی جانب یکطرفہ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے یا ہماری سالمیت کی جانب بڑھتے ہوئے اسکے ہاتھ کاٹنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ اگر بھارتی صدر اپنے یوم جمہوریہ پر ہمیں یہ سخت پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری دوستی کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے تو ہمارے وزیراعظم کی جانب سے بھارتی یوم جمہوریہ پر اسکے ساتھ دوستانہ تعلقات کیلئے عزم کا اظہار چہ معنی دارد؟ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارتی مراسم کے خواہش مند ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ بھارتی جارحانہ عزائم تو اب ہماری سالمیت تک آپہنچے ہیں‘ اس لئے اب ضروری ہے کہ دشمن کی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ اور توڑ کرنے اور اسے منہ توڑ جواب دینے کیلئے ملک میں قومی یکجہتی کی فضا پیدا کی جائے‘ ہر قسم کے اندرونی اختلاف و انتشار کو ختم کرکے افواج پاکستان کو سرحدوں کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داریوں پر مستعد کیا جائے اور دفاع وطن کیلئے قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا تاثر پختہ کیا جائے۔