اوگرا کرپشن کیس کی سماعت کرنے والے ، جسٹس جواد ادریس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مُشتمل، سُپریم کورٹ کے دو رُکنی، بنچ نے نیب حُکام کو حُکم دیا ہے کہ وہ، اوگرا کے مفرور چیئرمین توقیر صادق کا،چیئر مین اوگرا کی حیثیت سے تقرر، اور اُسے ملک سے فرار ہونے میں مدد دینے پر، ایک ہفتہ کے اندر اندر، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف، وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدرکے خلاف ریفرنس دائر کرکے 30 جنوری تک رپورٹ پیش کریں“۔ یاد رہے کہ راجا پرویز اشرف، جب وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے، تو اُن کی چیئرمین شپ میں 5رُکنی کمیٹی نے توقیر صادق کا بحیثیت چیئرمین اوگرا تقررکرکے، وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو بھجوائی تھی اور گیلانی صاحب نے وہ سمری منظور کرکے، توقیر صادق کے تقرر پر، مُہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ توقیر صادق نے، چیئرمین اوگرا کی حیثیت سے قومی خزانے کا 82ارب روپیہ لُوٹا اور مُلک سے فرار ہو گیا۔ فرار سے پہلے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ خاں نے کئی بار دُہائی دی کہ، توقیر صادق کوگورنر لطیف کھوسہ نے گورنر ہاﺅس میں چھُپا رکھا ہے۔ پنجاب پولیس گورنر ہاﺅس کی تلاشی لینے کے لئے سرچ وارنٹ حاصل کر رہی ہے اور اگر توقیر صادق گورنر ہاﺅس سے پکڑا گیا تو گورنر کھوسہ کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا جائے گا“۔ توقیر صادق فرار ہو گیا اور گورنر لطیف کھوسہ کو دُوسری وجوہات کی بنا پرگھر بھجوا دیا گیا، لیکن سُپریم کورٹ نے، تو قیر صادق کے خلاف کرپشن کیس کی سماعت جاری رکھی۔ سُپریم کورٹ نے ایک بار تو، ایڈووکیٹ آن ریکارڈکی سخت سرزنش بھی کی، جب انہوں نے یہ کہا کہ ”مجھے توقیر صادق کے وکیل ڈاکٹر عبدالباسط نے بتایا ہے کہ ”وہ امریکہ کی ریاست ورجینیا میں ہے“۔ موٹر وے پولیس کے ذمہ دار حُکام نے اب یہ مﺅقف اختیار کِیاہے کہ ۔”توقیر صادق، نیب افسران کی نالائقی کی وجہ سے، گورنر ہاﺅس سے، جھنڈے والی گاڑی میں اسلام آباد فرار ہُوا۔ اور وہان سے بیرونِ مُلک۔ یہ جھنڈا بردار کار کِس کی تھی؟۔ اِس کا جواب تو جھنڈا تقسیم کرنے والی اتھارٹی ہی دے سکتی ہے!۔ 24 جنوری کو، جب سُپریم کورٹ نے توقیر صادق کی عدم گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا تو، نیب کے ڈائریکٹر نے، بتایا کہ ”وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر پر، توقیر صادق کو فرار کرانے کا الزام ہے۔ اِن دونوںکے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لئے رپورٹ تیار ہے، صِرف چیئرمین نیب کے دستخط ہونا باقی ہیں“۔ اِس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ”اگر رحمن ملک اور جہانگیر بدر، توقیر صادق کو فرار کرانے میں ملوث ہیں تو یہ بات بھول جائیں کہ چیئرمین نیب اُن کے خلاف ریفرنس پر دستخط کر دیں گے“ جسٹس جواد اِدریس خواجہ نے ڈائریکٹر نیب سے کہا کہ ”چیئرمین نیب سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ اِس ریفرنس پر کب تک دستخط کر دیں گے؟۔ خُود کو ”عقلِ کُل“ سمجھنے والے چیئرمین نیب، ایڈمرل (ر) فصیح بُخاری عام طور پر ”حُکامِ بالا“ کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کوشش میں سُپریم کورٹ کو ”بدعنوان“ کہہ کر اپنے الفاظ واپس بھی لے چُکے ہیں، لیکن وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف، وزیرِ داخلہ رحمن ملک اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل، جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس پر دستخط کرنے سے پہلے کم از کم، دس بار استخارہ کرنا پڑے گا۔ 23 جنوری کو، دورانِ سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا ”ایک بندہ، قومی خزانے کا 82 ارب روپے لے کر فرار ہو گیا، لیکن کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رِینگی“۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے عدالت میں پیش ہونے والے، نیب اور ایف آئی اے کے افسران سے کہا ”آپ لوگ توقیر صادق کو گرفتار تو نہیں کر سکتے، لیکن چکّر بازیوں سے کام نہ لیں“۔ اب بے چارے نیب اور ایف آئی اے کے افسران چکّر بازیوں سے کام نہ لیں تو اور کیا کریں؟ وہ تو حُکم کے بندے ہیں۔ جیسا اوپر سے حُکم ملتا ہے بول دیتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے جاری کردہ تازہ ترین اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ”توقیر صادق قانونی راستے سے پاکستان سے باہر نہیں گئے“۔ تو کیا مُلزم سُلیمانی ٹوپی پہن کر، غیر قانونی راستے سے گیا؟۔ حیرت ہے کہ، قومی خزانہ لُوٹ کر فرار ہونے والے شخص کا نام، کتنے احترام سے لِیا جا رہا ہے؟۔ پرانے زمانے میں گاﺅں میں کسی بھی گھر کے داماد کو، سارے گاﺅںکا داماد سمجھا جاتا تھا۔ غنیمت ہے کہ، پیپلز پارٹی نے، ابھی تک اس روایت کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اِسی لئے جناب جہانگیر بدر کے بہنوئی (توقیر صادق) کا بہت ہی زیادہ احترام کیا جا رہا ہے۔ وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور رحمٰن ملک دونوں، یاروں کے یار اور مثالی وفادار مشہور ہیں۔ ہر مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے لئے ڈھال بن جاتے ہیں۔ جہانگیر بدر تو اُن سے بھی زیادہ پُرانے وفادار ہیں۔ پھر اُن کی بہن کے سُہاگ کی سلامتی کے لئے جان کیوں نہیں لڑا دیں گے ؟وزارتِ داخلہ کے اعلامیہ میں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”توقیر صادق کا نام، 19جنوری 2012ءکو ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ بات سُپریم کورٹ کو بھی بتائی گئی تو، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ”توقیر صادق کے پاسپورٹ منسوخ ہیں، تو وہ سفر کیسے کر سکتا ہے؟۔کیا وہ اُونٹ پر بیٹھ کر سرحد پار کر گیا؟۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ کوئی بھی ایجنسی توقیر صادق کو پکڑنا ہی نہیں چاہتی۔ پہلے موٹر وے پولیس، پھر پنجاب پولیس اور ایف آئی اے نے بھی یہ کام کیا ہے اور اب وزارتِ داخلہ بھی اس مشن میں شامل ہو گئی ہے“۔ وزارت داخلہ کے اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ا یف آئی اے نے، دوبئی میں توقیر صادق کو گرفتار بھی کر لیا تھا لیکن دوبئی حُکام نے چھڑا لیا۔ وزارتِ داخلہ نے، دوبئی حُکام سے، توقیر صادق کو، اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے“۔ توقیر صادق نے دوبئی کو اپنا مسکن کیوں بنایا؟۔ سوئٹزرلینڈ یا فرانس کو کیوں نہیں؟۔ اِس راز سے تو اُس کے ”سالارِ جنگ“ ہی پردہ اُٹھا سکتے ہیں۔7اکتوبر 2012ءکو سینٹ میں قائد ایوان، جہانگیر بدر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر، اسلام آباد اور پنجاب کی پولیس کے ہمراہ ایف آئی اے نے، توقیر صادق کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا تو ایوان، بالا میں کُہرام مچ گیا۔ سینیٹر میاں رضا ربانی اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے، اُس چھاپے کو ایوان کی توہین قرار دیا اور پارلیمنٹ کے ارکان کو ”بے توقیر“۔ کرنے کی سازش قرار دیا۔ سینیٹر میر حاصل بزبخو اور سینیٹر حاجی عدیل نے رحمٰن ملک کو طلب کر کے بازپُرس کرنے کا مطالبہ کِیا۔ اُس کے بعد، بات آئی گئی ہو گئی۔ رحمٰن ملک اپنے کام میں لگے رہے اور جہانگیر بدر اپنے کام میں اور دوسرے سینیٹرز بھی، ایوانِ بالا کو ”بے توقیر“ کئے جانے کی سازش کو بھُول گئے۔ سُپریم کورٹ، جناب یوسف رضا گیلانی کو، توہینِ عدالت کا مجرم قرار دے کر اور اُنہیں وزارتِ عُظمیٰ سے نااہل قرار دے کر، فیصلہ دے چُکی ہے کہ گیلانی صاحب ”صادق اور امین“ نہیں رہے۔ راجا پرویز اشرف، رحمٰن ملک اور جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا تو باقاعدہ سماعت ہوگی۔ نامزد ملزمان کو مجرم قرار دینے سے پہلے، انہیں صفائی کا موقع مِلے گا۔ اُس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے یہ تینوں جھنڈا بردار ”صادق اور امین“ ہی کہلائیں گے۔ ممکن ہے، اِس سے پہلے ہی، توقیر صادق ازخود، 82 ارب روپیہ قومی خزانے میں جمع کرا دے اور جناب رحمٰن ملک اور جہانگیر بدر کو، اپنے دائیں بائیں بٹھا کر، میڈیا کانفرنس میں اعلان کر دے کہ ”مَیں نے تو 82 ارب روپے امانت کے طور پر اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی خبر، سُننے کو مِلتی ہے۔کیا خبر یہ خبر بھی آ جائے؟