پاکستان میں شیعہ سُنی کی ٹارگٹ کلنگ کا آغازاَسی (80)کی دہائی میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ پھیلتا چلاگیا ۔ سپاہ صحابہ ، سپاہ محمد، لشکر جھنگوی اور تحریک جعفریہ جیسی متشدد تنظیمیں وجود میں آگئیں اوربات شیعہ سُنی مذہبی اور سیاسی راہنمائوں کی انفرادی ٹارگٹ کلنگ سے بڑھ کر مسجدوں اور امام بارگاہوں پرحملوں اوربے دریغ قتل و غارت تک جا پہنچی۔ اُس زمانے میں بھی اور آج بھی پولیس اورخفیہ ایجنسیوں کا یہی تجزیہ اور رائے ہے کہ پاکستان کے اندر شیعہ سُنی فساد کچھ بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے شروع کروایا تھا جس میں بیرونی ایجنٹوں کیساتھ ساتھ کچھ پاکستانی جذباتی عناصر کوبرین واشنگ کر کے فرقہ وارانہ قتل و غارت پر لگا دیا گیا جس کا خود اُنہیں احساس وادراک نہیں تھا۔وہ نیک نیتی سے جنت کے حصول کیلئے ایک دوسرے کو مارتے اور مرتے رہے۔ حکومت پاکستان اور ہر مکتب فکرکے درد دل رکھنے والے اصحاب نے اس آگ کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس مقصد کیلئے کسی مکتب فکر کے راہنماء کو کوشش اور قائل کر کے ساتھ ملانے ضرورت نہیںپڑتی تھی بلکہ ہر کوئی اپنے ضمیر کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے از خود شیعہ سُنی کے درمیان دشمنوں کی پید ا کردہ اس مصنوعی نفرت اورلڑائی کو ختم کرنے کی کوششوں میں شامل ہوا۔یہ تمام مذہبی رہنماء 'قومی یکجہتی کونسل' کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کیں،جس میں اُنہیںخاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی۔اسی قومی یکجہتی کونسل نے 2002ء میں عوام ، خصوصا ًاُن عناصر جو کسی برین واشنگ یااشتعال انگیز پروپیگنڈے کے نتیجے میں شیعہ سُنی غارتگری کی طرف راغب ہو گئے تھے ،کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے شکوک وشہبات رفع کرنے کیلئے پاکستان کے ہر مکتب فکر کے سب سے معتبر اداروں کو ایک سوالنامہ بھیجا اور اُن سے اس پر فتویٰ طلب کیا۔ یہ سوالنامہ دارلعلوم کراچی ،جامعہ نعیمیہ لاہور، جامعہ اشرفیہ لاہور ، دارالافتاء وا لارشاد کراچی اور جامعہ المنتظر لاہور کو ارسال کیا گیا ۔اس سوالنامے میں اُٹھائے گئے سوالوں کے ان اداروں کے جیدعلماء اور مفتی صاحبان نے قرآن و حدیث کے حوالوں کیساتھ نہایت کافی و شافی جوابات (فتاویٰ)دیئے۔ آج دس بارہ سال کے بعد جب شیعہ اورسُنی مکاتب فکر کے چیدہ چیدہ مذہبی ، سیاسی اور سماجی شخصیات کی فرقہ وارانہ بنیادوں پرٹارگٹ کلنگ کا فتنہ ایک بار پھر سر اُٹھا تا نظر آرہا ہے ، وہ استفسارات اور اُنکے جوابات اختصار کیساتھ مفاد عامہ کیلئے دہرائے جاتے ہیں کہ شاید اس سے ناپختہ ذہنوں میں پیدا ہونیوالے سوالوں کو جواب مل جائے او ر پاکستان کے تمام مکاتب ِفکر کے نمائندہ اداروں اور علما ء کی اس مسئلے پر متفقہ رائے قوم کے ایک بار پھر ذہن نشین ہوجائے۔ خاص طورپر اُن ٹارگٹ کلرز کے جولامحالہ ان میں سے کسی نہ کسی مکتب فکر کے پیروکار تو ہیں ۔
سوال نمبر 1: کیا اہل تشیع فرقہ کے لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے ؟ جس طرح آج کل ملک میں کچھ لوگ شیعہ فرقہ کے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ اسی طرح شیعہ فرقہ کے لوگوں کا گروہ اہل سنت کے لوگوں کو قتل کر رہا ہے ۔ کیا یہ شیعہ فرقہ کے لوگوں کیلئے جائز ہے؟
جوابات:(۱) ـ"کسی بھی شخص کو بغیر کسی یقینی شرعی وجہ کے قتل کر نا شرعاً حرام ہے ۔اگر کسی شخص سے واقعتہ ً کوئی جرم سرزد بھی ہو جائے تو اسے سزاد ینے اور حدود و قصاص جاری کرنے کااختیار صرف حاکم کو ہے ۔ عوام کیلئے قانوں کو ہاتھ میں لینا درست نہیں اور ایک دوسرے کو اس طرح سڑکوں پر، بازاروں اور مسجدوں میں قتل کرنا حرام اور سخت گناہ ہے "۔(دارلعلوم کراچی)
(۲) "اہل تشیع فرقہ کے لوگوں کو قتل کرنا ہر گز جائز نہیں ہے اور جنہوں نے ملک کے اندر فرقہ پرستی کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے یہ لوگ سراسر شر اور فساد پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں ۔جیسے اہل تشیع کے لوگوں کو اہل سنت یا دیگر لوگوں کا قتل کر نا ہر گز جائز نہیں ،اسی طرح شیعہ فرقہ کے لوگوں کیلئے اہل سنت کا قتل جائز نہیں ہے"۔ (جامعہ نعیمیہ لاہور)
(۳) "اختلاف مسلک و اختلاف رائے کے باوجود شریعت اسلامیہ اسکی ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ بلاکسی شرعی وجہ کے ایک دوسرے کو قتل کیا جائے۔ اسلام میں دہشت گردی کاکوئی تصور نہیں۔ بلکہ بغیر شرعی وجہ کے خواہ مخواہ کسی کو بھی قتل کرنا اتنا سخت گناہ ہے کہ قرآن کریم نے اسے پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے اور اسکی سزا جہنم اور اسے اﷲ تعالیٰ کے قہر و غضب کا موجب قرار دیا ہے"۔(جامعہ اشرفیہ لاہور)(۴) "یہ قتل و غارت گری جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص اسلام کے احکام قطعیہ وبدیہیہ کا انکار کرکے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے تو بھی اسے سزادینا اسلامی حکومت کا کام ہے ،نہ کہ عوام کا "۔(دارالافتاء والارشاد کراچی) (۵) "سُنی شیعہ کی آپس میں قتل و غارت گری ناجائز ہے اور اسلام میںسخت ترین سزا کی مستوجب "۔ (جامعتہ المنتظر لاہور)
سوال نمبر 2: اگر اہل تشیع سے اہل سنت کو کچھ تکلیف ہوتی ہے یا پھر اہل تشیع کو اہل سنت سے کچھ تکلیف ہوتی ہے تویہ بات حکومت کو بتانی چاہیئے یا ازخود ہی قتل و غارت کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے ؟
جوابات :(۱) "عوام کیلئے قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے ۔(دارالعلوم کراچی)۔ (۲) "قانون کو ہاتھوں میں لینے کی بجائے حکومت کو مطلع کرنا ، یہ بات بہت بہتر ہے اور مستحسن ہے "۔(جامعہ نعیمیہ لاہور)۔
سوال نمبر 3: ایسے فرد یا تنظیم کی مدد و اعانت کے بارے کیا حکم ہے ؟
جوابات:(۱) "ایسے افراد کا ساتھ دینا ،انکے ساتھ ہمدردی کرنااور ان کا تعاون حاصل کرنا ،شریعت اسکی ہرگز اجازت نہیں دیتی ۔ یہ تعاون علی الاثم و العدوان ہے جس کی قرآن مجید میںوضاحت کی ساتھ ممانعت وارد ہوئی ہے "۔(جامعہ اشرفیہ لاہور)(۲) "ہر وہ تنظیم یا فرد جو شرعی حدود و قیود کو نظر انداز کر کے قتل و غارت گری کا ارتکاب کرے، اسکی مدد شرعاً درست نہیں"۔(دارالافتاء والارشاد کراچی )(۳) "قتل و غارت گری کرنے والوں کی اعانت ، مدد ، انہیں پناہ دینا، درحقیقت انہیں قتل پر اکسانا اور فساد پیدا کرنا ہے۔ ایسے شخص و اشخاص مفسد فی الارض کے بالواسطہ موجب ہیں ۔ قرآن مجید نے ان کیلئے سخت سزا مقرر کی ہے "۔(جامعتہ المنتظر لاہور)
سوال نمبر 4:شیعہ سُنی قتل غارت میں ملوث لوگ کہتے ہیں کہ ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کیا یہ جہاد کی شرائط کو پورا کرتے ہیں؟ کیا یہ جہاد ہے یا غیر شرعی فعل؟
جوابات:(۱) "اس طرح کی قتل و غارت گری کو جہاد کہنا ہر گز درست نہیں بلکہ بڑی ضلالت اور گمراہی ہے اور جہاد کو بدنام کرنا اور اسکے تقد س کو مجروح کرنا ہے "۔ (دارالعلوم کراچی)۔ (۲)"ملک کے اندر فرقہ پرستی کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنا ، یہ ہرگزجہاد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جہاد کا معنی ہے کہ "اعلاء کلمتہ الحق" اﷲ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کرنے کیلئے دشمنان خدا سے برسرپیکار ہونا، یہ جہاد ہے نہ کہ اپنے ملک کے اندر یعنی دارالاسلام میں مسلمانوںکوہی کافر ومشرک قرارد ے کر قتل کرتے رہنا، یہ جہاد ہے ؟ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے اور کسی ایک جان کو ناحق قتل کرنا ، یہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے"۔(جامعہ نعیمیہ لاہور)
تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ …(القران)
تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ …(القران)
Jan 28, 2014