اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + آن لائن + آئی این پی + اے این این) قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی مسلسل غیر حاضری پر اپوزیشن نے شدید احتجاج اور واک آئوٹ کیا، ملکی صورتحال پر ایوان کو اعتماد میں نہ لینے پر بھی اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا۔ ٹوکن واک آئوٹ کے بعد اپوزیشن ارکان واپس آ گئے۔ آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی مسلسل عدم حاضری کے باعث ان کی نشست خالی قرار دینے کی تحریک جمع کرادی گئی ہے۔ یہ تحریک پیپلز پارٹی کے رکن عمران ظفر لغاری نے رولز 44کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے آئین کا تقاضا ہے ہر رکن قومی اسمبلی میں اپنی حاضری کو یقینی بنائے لیکن قائد ایوان کی نشست پر کسی شخص نے بھی گزشتہ 4ماہ کے دوران حاضری نہیں دی اس لئے اس نشست کو خالی قرار دیا جائے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کی نشست خالی کرانے کے لئے جو تحریک جمع کرائی اس کے متن میں کہا گیا ہے آرٹیکل 64 کی شق 2 کے تحت وزیراعظم کی نشست خالی قرار دی جائے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ملکی حالات کیا ہیں شاید حکومت کو احساس نہیں۔ وزیراعظم ایوان میں آئیں تو ایوان کو حوصلہ ہوتا ہے جس کو ووٹ دیا وہ موجود ہے۔ وزیراعظم پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تو موجود تھے لیکن پارلیمنٹ میں نہیں آئے اس سے غلط پیغام جاتا ہے وزیراعظم صرف پارلیمانی پارٹی سے ملتے ہیں وزیراعظم کا ایک ایک لفظ پالیسی بنتا ہے کیا وزیراعظم صرف ایک پارٹی کے وزیراعظم ہیں ہمیں لیڈر کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم ایوان میں آ کر عوام کو کہیں وہ ان کے لیڈر ہیں آنکھیں ترس گئی ہیں کہ وزیراعظم ہائوس کا دروازہ کھلے اور وہ ان کو ایوان میں دیکھیں۔ وزیراعظم صاحب آپ آگے بڑھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ کو دلدل میں پھنسا کر سیاست نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی اور اپوزیشن آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی کسی کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے۔ اے این این کے مطابق انہوں نے مسلسل غیر حاضری پر وزیراعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا قائد ایوان کو عوام اور عوامی مسائل کی کوئی پرواہ نہیں ، وہ خود کو صرف اپنی پارٹی کا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ پیر کی شام قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید نے کہا کہ وزیراعظم قائد ایوان ہوتا ہے انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں آنا چاہئے ۔ قومی اسمبلی کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے، وہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں تو اسمبلی کیوں نہیں آ سکتے؟۔ بطور اپوزیشن لیڈر میری آنکھیں ترس گئی ہیں کہ وزیراعظم کو اس ایوان میں دیکھوں۔ حکمران فیصلہ کریں وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ۔ ہم وہ نہیں جو دلدل میں پھنسا کر بھاگ جائیں مان لیا آپ شیر ہیں ہم بزدل مگر ہم شیروں کے ساتھ ہیں۔ آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ خورشید شاہ نے کہا طالبان سے مذاکرات پر حکومت غیر سنجیدہ ہے‘ پوری قوم وزیراعظم کی جانب دیکھ رہی ہے مگر وہ ایوان سے غائب ہیں‘ مشکل وقت میں وزیراعظم کو قوم کی نمائندگی کرنی چاہئے‘ حکومت جلد فیصلہ کرے وہ مذاکرات چاہتی ہے یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑے گی؟ اپوزیشن سیسہ پلائی دیوار بن کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی‘ عمران خان نے کہا وہ پرو طالبان نہیں پرو پاکستان ہیں‘ ملکی مفاد کی خاطر امن مذاکرات کی بات کرتے ہیں،وزیراعظم مذاکرات کی سربراہی کریں اور قوم کو لیڈر شپ دیں، 4 آل پارٹیز کانفرنسز میں مذاکرات کا فیصلہ ہوا تھا تو پھر اس حکمت عملی کو کس طرح تبدیل کردیا گیا‘ قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ آن لائن کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کی عدم شرکت پر ایوان سے پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور جمشید دستی نے واک آؤٹ کیا حکومت کی جانب سے وفاقی وزیرزاہد حامد،رانا تنویر حسین اپوزیشن کو منا کر ایوان لے کر آئے۔ ثناء نیوز کے مطابق ایوان میں تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس 2014ء بھی پیش کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بنوں، مستونگ، راولپنڈی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے سنگین واقعات پر تشویش کرتے ہوئے بدامنی پر قابو پانے کے لئے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین قومی اسمبلی کے رکن عمران خان نے کہا افسوس وزیراعظم نہیں آتے آج ملک کو لیڈر شپ کی ضرورت ہے، وزیراعظم قوم کو اعتماد میں لیں۔ وزیراعظم ایوان میں آ کر اعتماد میں لیتے تو ہم ان کے ہاتھ مضبوط کرتے۔ ان کا کہنا ہے اے پی سی کے بعد جو صورتحال بدلی، انہیں ایوان کو اعتماد میں لینا چاہئے، مسائل کا حل کرنے کا ایک طریقہ مذاکرات ہیں، ساری قوم کو ایک ہی بات کا انتظار ہے ملک میں امن کیسے آئے گا۔ اپوزیشن رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا وزیراعظم ایوان میں نہ آکر ایوان کو اعتماد میں نہیں لے رہے۔ آج قوم توقع کر رہی تھی وزیراعظم ایوان میں آ کر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا ملک میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات ہو رہے ہیں۔ مستونگ میں سانحہ ہوا، بنوں اور پنڈی میں دھماکے ہوئے۔ رکن قومی اسمبلی شیخ رشید نے وزیراعظم کی قومی اسمبلی سے مسلسل غیر حاضری پر بات کرتے ہوئے کہا رکن قومی اسمبلی40 دن ایوان سے غیر حاضر رہے تو نشست حالی ڈکلیئر کی جاتی ہے۔ سپیکر صاحب! آپ وزیراعظم کی سیٹ کا فیصلہ کریں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا وزیراعظم کی چھٹی کی درخواست ملی ہے جو ریکارڈ پر ہے۔ شیخ رشید نے کہا ہمیں تو وزیراعظم کی رخصت کا علم نہیں۔آئی این پی کے مطابق قومی اسمبلی میں سابق رکن پارلیمنٹ عبدالقدوس سانحہ نواب شاہ، نجی ٹی وی چینل کے کارکنوں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں جاںبحق ہونے والے افراد کے لئے دعائے مغفرت کرائی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے رواں 8ویں سیشن کے لئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کی صدارت کے لئے 7 رکنی پینل آف چیئر پرسنز کا اعلان کیا ہے۔ پینل آف چیئرپرسنز میں مسلم لیگ ن کے پرویز ملک، طارق فضل چودھری، تحریک انصاف کے چودھری اسدالرحمن، پی پی کے سید نوید قمر، ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل، جے یو آئی کی آسیہ ناصر اور عثمان ترکئی شامل ہیں۔ مزید برآں مسلم لیگ(ن) کے خوشاب سے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے رکن اسمبلی منتخب ہونے پر عزیر خان نے پیر کو قومی اسمبلی میں حلف اٹھا لیا۔ سپیکر ایاز صادق نے عزیر خان سے حلف لیا۔ ملک میں صحافیوں پر ہونے والے دہشتگردی کے حملوں ، آئے روز صحافیوں کی شہادت، ایف آئی آر درج نہ ہونے پر صحافیوں نے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کرگئے تاہم وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے منا لیا۔ اے پی پی کے مطابق وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ اعجاز الحق نے کہا اب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے‘ جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ جلد کیا جائے‘ امریکہ‘ بھارت یا افغانستان سمیت جو بھی مذاکراتی عمل کو سبوتاژکر رہا ہے اس حوالے سے ان کیمرہ اجلاس میں ارکان کو آگاہ کیا جائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے پر آج منگل کی صبح ساڑھے دس بجے تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔