ڈاکٹر آصف علی چھٹہ ایک کتاب ہیں میں اس کتاب کا مطالعہ کر چکا ہوں میری یہ خواہش ہے کہ آپ اس کتاب کا کم از کم دیباچہ تو پڑھ لیں ڈاکٹر آصف چھٹہ صاحب پی ایچ ڈی میں میرے کلاس فیلو تھے موصوف ڈاکٹر اورنگ زیب صاحب، ڈاکٹر سلیم ملک صاحب، ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب، ڈاکٹر کامران صاحب اور ڈاکر ضیاء الحسن صاحب کے منظور نظر تھے۔ کسی طالب علم کا ڈاکٹر اورنگ زیب صاحب کا منظور نظر ہونا ایک خبر کی حیثیت رکھتا ہے اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ آصف علی چھٹہ اپنے ان قابل ہیبتوں کا بہت ادب کرتے تھے ہمارے ساتھ ایک اور ہستی بھی تھی اور وہ تھی غلام اکبر صاحب کی غلام اکبر صاحب اب ڈاکٹر ہیں اور فیصل آباد یونیورسٹی میں تدریسی فرائض کی انجام دہی میںمصروف ہیں مذکورہ اساتذہ کرام کی ذہین و فطین شاگردائوں اور ہماری کلاس فیلائوں میں ڈاکٹر حمیراہ ارشاد (صدر شعبہ اردو لاہور کالج فار وومین یونیورسٹی)، ڈاکٹر تقدیس زہرہ، ڈاکٹر عظمت رباب اور ڈاکٹر صائمہ شمس اردو کی تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کی طرف توجہ دے رہی ہیں۔
چھٹہ صاحب کی شخصیت میں بہت سے خصوصیات ہیں کشادہ دل، کشادہ نظر اور پیکر خلوص ہیں۔ غیبت سے ان کی طبیعت متنفر رہتی ہے غیبت کا لمحہ انسان پر بڑا کھٹن ہوتا ہے باتوں باتوں میں انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ غیبت کر رہا ہے اور پھر غیبت میں مزا بھی بہت ہوتا ہے چھٹہ صاحب اس لمحہ کو خاموشی سے گزار دیتے ہیں اور ہوں ہاں بھی نہیں کرتے۔ آصف چھٹہ صاحب کی مشکل پسندی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے عبدالعزیز خالد کے فن پر ایم اے اور ایم فل کے مقالے تحریر کئے۔ پی ایچ ڈی میں ان کے مقالے کا موضوع ’’بیسیویں صدر میں آزاد کی تحریکیں اور اردو شاعری‘‘ تھا۔
حال ہی میں ڈاکٹر آصف علی چھٹہ کی کتاب ’’مجید امجد کی نظمیں، تجزیاتی مطالعات‘‘ کے عنوان سے منصّہ شہود پر آئی ہے۔ چھٹہ صاحب نے اس کتاب کے حوالے جو سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا ہے؟ وہ یہ کہ اسے استاد الاساتذہ اور مجید امجد شناس جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور کے زیر اہتمام اپنی سرپرستی میں شائع کیا ہے۔
جب سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کی سرپرستی سنبھالی ہے اس وقت سے تحقیق و تنقید اور دیگر موضوعات پر نئی نئی کتابیں منظر عام پر آرہی تھیں۔ اردو نظم کے حوالے سے جن شاعروں نے اقبال کے بعد اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے، ان میں میراجی، ن م راشد، فیض احمد فیض اور مجید امجد کے اسماء بہت اہم ہیں مجید امجد کی مقبولیت میں تاخیر کا باعث ان کی اپنی قناعت پسند طبعیت لاہور جیسے بڑے ادبی مرکز سے گریز اور ان کے انوکھے اسلوب ہی کو کہا جا سکتا ہے بہر حال جس شاعر نے خود کو اجنبی، بے نشاں اور رفعت مقام اور شہرت دوام سے الگ کھڑے دیکھا تھا اس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا جانے لگا وہ شاعر جس کی زندگی میں صرف ایک مجموعہ ’’شب رفتہ‘‘ ہی چھپا تھا بہت جلد ادبی گروپ بندیوں اور قارئین ادب کی بے توجہی سے اکتا گیا۔ بعد ازاں محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب، ڈاکٹر وزیر آغا اور دیگر نقادوں نے مجید امجد شناسی کا ڈول ڈالا۔ اب مجید امجد جیسے بڑے شاعر کو لوگ تسلیم بھی کرتے ہیں اور شاعر ادیب اس شاعر کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو اعزاز بھی سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف چھٹہ اس لحاظ سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مجید امجد کی نظموں پر مختلف ادوار میں لکھے جانے والے تجزیات کو مختلف کتب و رسائل سے جمع کیا ہے اور کچھ تجزیات دوست احباب سے فرمائش کر کے بھی لکھوائے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے مختلف نوع اور رنگوں کے پھولوں پر مشتمل ایک گل دستہ تیار کیا ہے جس بوباس عاشقان مجید امجد کے مشام کو معطر کر دے گی۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے مجید امجد کی نظم ’’حضرت زینبؓ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نظم امیجری، تراکیب اور سنگلاخ زمین کی وجہ سے نظم حسینؓ‘‘ سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور تاثر میں بھی زیادہ آگے ہے مجید امجد نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ اس کی ردیف اتنی مشکل ہے کہ قافیے سے بہ مشکل میل کھاتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’بے کسوں کے خیام‘‘ شہنشوں کے خیام وغیر تخیل کے سامنے ایک محدود فضا لاتے ہیں خیام سے سر زمین عرب اور اس کی ارد گرد کا ماحول یاد آتا ہے اور تخیل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اس مجموعے میں ڈاکٹر فخرالحق نوری، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور ڈاکٹر سید عامر سہیل کے تجزیات مجید امجد کی تفہیم کے ساتھ ساتھ قاری کے علم میں بھی اضافے کرتے ہیں یہ کتاب مغربی پاکستان اردو اکیڈمی نے نہایت خوب صورت گیٹ اپ میں شائع کی ہے۔
مجید امجد صدر کے حوالے سے منتخب مقالات پر مبنی ایک کتاب مجید امجد نئے تناظر میں پروفیسر احتشام علی نے مرتب کی ہے اس کتاب میں مجید امجد کے حالات زندگی اور ان کے بارے میں تحقیقی و تنقیدی کام کی تفصیل ملتی ہے اس میں مجید امجد کی غزل گوئی پر بھی مقالات موجود ہیں۔ مجید امجد کی نظموں کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں احتشام علی کی اس کتاب میں یہ تراجم بھی نظر آتے ہیں مذکورہ کتب محققین و ناقدین اور ادب کے عام قاری کے لئے کسی سوغات سے کم نہیں۔