عقیل روبی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ تو یاد نہیں ہے اور نہ ہی خیال کے گھوڑے دوڑانے سے اس بات کا سراہاتھ آئے گا۔ بس یوں لگتا ہے کہ میں اسے ملنے سے پہلے بھی مل چکا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پہلی ملاقات میں بھی کسی اجنبیت کا عمل دخل نہیں تھا۔ پھروقت کے ساتھ ساتھ یہ دوستی بڑھتی چلی گئی۔ اگرچہ اس سے ملاقات قدرے کم رہی لیکن جب بھی اسے ملنا ہوا ایک اپنائیت کا اظہار ہر دو طرف سے ضرور ہوا۔ ہم فنون کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ روبی کا ادھر آنا بھی کم کم ہوتا تھا لیکن جب بھی آتا بہار آجاتی۔
عقیل روبی جیسے لوگ خال خال جنم لیتے ہیں۔ خاک کے پردے سے ایسے صاحب علم اور تخلیق کار ذراکم ہی نکلتے ہیں۔ وہ بیک وقت شاعر بھی تھا، نقاد بھی تھا، مورخ بھی تھا، ماہر تعلیم بھی تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے ملکی ادب کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ادب بالخصوص یونانی ادب سے والہانہ عشق تھا۔ بات کوئی بھی شروع کرنی ہو، بات کسی کے بھی متعلق ہو اور بات کیسی بھی ہو وہ اس کا آغاز دیومالائی داستانوں کی طرح کرتا اور پھر لفظ اس کی زبان پر بولنے لگتے۔ اس کی تحریر میں تقریر کا رنگ غالب تھا۔ اسے بات کرنے کا سلیقہ اور بات بنانے کا ڈھنگ آتا تھا۔ دراصل اس میں چہار درویش کا پانچواں درویش چھپا ہوا تھا جو کہانی کہتا تھا، کہانی لکھتا تھا اور کہانی سناتا تھا۔ رات ختم ہوجاتی تھی مگر روبی کہانیاں اگلی رات پر اٹھادی جاتی تھیں۔وہ محفلوں میں کم کم آتا تھا۔ مجلسی آدمی بھی نہیں تھا، لیکن جب ملتا، محفل سجاتا تو محفل کی جان ٹھہر جاتا۔ بڑے بڑے چغادری فقرہ باز بھی اس کے سامنے سنبھل کر بیٹھتے تھے۔ لاہور کی سڑکوں پر کئی لوگ اس کی انگلی تھام کر چلے ہیں اور کئی لوگوں نے اس کی صحبت سے حظ اٹھایا ہے۔ عقیل روبی ناصر کاظمی کا دیوانہ تھا۔ اس کی شاعری کا عاشق تھا اور اس کے لہجے کا اسیر تھا۔ پہروں پر بیٹھا اس کی باتیں کرتا رہتا۔ مجال ہے تھک جائے۔ روبی میر پر بات کررہا ہو، غالب کے کسی شعر کی پرتیںکھول رہا ہو یا اقبال کی الہامی شاعری کی تفسیر کر رہا ہو اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا اطمینان اور اس کے لہجے میں ایک طرفہ تفاخر موجود ہوتا تھا۔ وہ فیض، احمد ندیم قاسمی، احمدفراز، اور منیر نیازی سے اس لیے بھی محبت کرتا تھا کہ یہ لوگ اپنے عہد کی پہچان تھے اور انہوں نے ایک عہد کو فکری سطح پر متاثر کیاتھا۔
بات کہاں سے کہاں جانکلی ہے اور ابھی کہاں سے کہاں جاسکتی ہے، لیکن مجھے تو اس سے آخری ملاقات کا ذکر کرنا ہے جو میری ادبی زندگی کا اثاثہ بھی ہے اور دوستی کے حوالے سے ایک گہرا اور انمٹ زخم بھی۔
میں اپنے دفتر میں بیٹھا داغ کے اولین شعری مجموعے آفتاب داغ کو حتمی شکل دے رہا تھا کہ میرے سیل فون پر عقیل روبی کا نام بلنک کرنے لگا۔ کوئی ایک سال کے وقفے کے ساتھ اس کا نام میرے سیل فون پر چمک رہا تھا میں نے فوراً فون آن کیا وہی آشناآواز ، وہی محبت میں ڈوبا ہوا لہجہ، وہی بے تکلفانہ انداز۔ آواز آئی’’اشرف کیا حال ہے، کیسے ہو‘‘ میں جواباً عرض کیا ’’اللہ کا شکر ہے اس بات پر بھی ایک طویل عرصے کے بعد آپ کی آواز سنائی دی ہے۔ میری یادکیسے آئی۔ کہنے لگا میں کسی روز دفتر آئوں گا۔ باقی بات پھر ہوگئی۔ فون بند ہوگیا۔ میں سوچنے لگا اسے اتنی عجلت تو کبھی نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ بڑے اطمینان سے فون کرتا ہے اور بڑی طمانیت سے بات، خدا خیر کرے، اللہ جانے کیا بات ہے کچھ دیر بعد میں بھی اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور پھر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ کوئی ایک ہفتے بعد میرے کمرے کے باہر بیٹھے ندیم صاحب سے کوئی شخص پوچھ رہا تھا کہ اشرف جاوید کہاں بیٹھتا ہے۔ اس نے اشارہ سے بتایا میرے متعلق بتایا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کے لئے اٹھتا، ہو میری میز کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی ہکا بکا رہ گیا۔ یہ تو وہ روبی نہیں ہے جو میں نے ایک سال پہلے دیکھا تھا۔ نہ وہ صحت نہ وہ لب و لہجہ، نہ چہرے پروہ تمازت، نہ آنکھوں میں وہ رونق، ایک صحرا تھا بس لق و دق صحرا۔ میں نے کہا روبی صاحب کیا معاملہ ہے۔ اس نے کچھ کہے بغیر ایک لفافہ میرے سامنے رکھاجس میں ایک مسودہ تھا۔ ’’یادوں کے جھروکوں سے‘‘ یہ شائع کرنا ہے اور پہلی فرصت میں شائع کرنا ہے۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ دعا کرو اللہ مجھے اتنا وقت دے کہ میں اپنے ادھورے کام مکمل کرلوں۔ وہ باتیں کررہا تھا اورمیں گم سم اس کا چہرہ دیکھے جارہا تھا۔ اشرف میں نے کسی کو اپنی بیماری کے متعلق نہیں بتایا اس لئے کہ دوست پریشان نہ ہوں۔ میں نے ایک بہادر آدمی کی طرح اس بیماری کا مقابلہ کیا ہے۔ اب پہلے سے بہت بہتر ہوں، لیکن آپ تو دھان پان سے ہوگئے ہیں۔ میں نے تویہ روبی پہلی بار دیکھا ہے۔ کسی کو بھی آپ کی بیماری کا علم نہیں ہوسکا حتیٰ کہ آپ کی ہمسائیگی کا دم بھرنے والوں کو بھی۔ اس کے چہرے پر کچھ افسردگی سی پھیل گئی اس نے کہا یار سب باتیں درست ہیں، لیکن اپنی اپنی جگہ پر شاید ہم سب لوگ ایک دوسرے کی توجہ کے قابل نہیں رہے یا ایک دوسرے سے جان بوجھ کر بے اعتنائی برتنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے مقام پر نہیں ہے سنائو تم آج کل کیا کررہے ہو۔ وہ داغ والا کام کیا ہوا۔ میں نے کہا کہ تمہارے فلیپ کا انتظار رہے کہنے لگا میرا یہ مسودہ رکھ لو۔ اسے پڑھو اور مجھے بتائو کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا اسے کتابی صورت میں شائع کریںگے کہنے لگا میں اگلے ہفتے آئوں گا۔ تمہاری کتاب کا فلیپ بھی ہوجائے گا اور اس مسودے کو حتمی شکل بھی دے دیں گے۔ پھر اگلے ہفتے عقیل روبی میرے سامنے بیٹھا میری کتاب کیلئے فلیپ لکھ رہا تھا اور میں نے اس کی آنکھوں میں جھلملاتا اور لہراتا ایک صحرا دیکھ رہا تھا۔ وہ پہلے سے خاصا کمزور ہوگیا تھا۔ اس کے لہجے میں بھی تھکن آگئی تھی۔ ہمیشہ رہنے والی تھکن، میں نے اسے مسودے کے بارے میںاپنی رائے سے آگاہ کیا کہنے لگا۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس میں جو کچھ اضافہ یا ترمیم کرنا چاہتے ہو کرلو۔ تم نے پہلے بھی میرے دو تراجم کی اشاعت کے سلسلے میں بہت اچھے مشورے دیتے تھے۔ میں آئندہ کسی دن تمہیں فون کرکے آئوں گا۔ وہ چلا گیا میں نے کوئی دوہفتوں کے واقعے کے بعد اسے فون کیا، بیل ہوتی رہی پھر فون بند ہوگیا میں نے تقریباً دس منٹ کے وقفے سے دوبارہ فون کیا پھر بھی پہلے والی صورت حال برقرار رہی میں نے سوچا وہ سورہا ہوگا۔ جب اٹھے گا تو خود ہی رابطہ کرلے گا، مگر جب اگلے دن بھی اس کا فون نہ آیا تو میں کچھ پریشان سا ہوگیا اور میری یہ پریشانی بجا بھی تھی کیونکہ میں نے اسے جس حالت میں دیکھا تھا وہ کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی۔ میں نے اپنے خدشے کا اظہار فرخ سہیل گوئندی صاحب سے بھی کیا۔ انہوں نے کہا تمہارا خدشہ درست ہوسکتا ہے۔ کیونکہ روبی بہت ذمہ دار شخص ہے۔ میرا بہت پیارا دوست ہے میں ایک عرصے سے اسے جانتا ہوں۔ اس نے اگر فون کا جواب نہیں دیا تو ضرور کوئی بات ہے۔ ہمیں پتہ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا جی! لیکن میرادل مسلسل نے قرارتھا، ایک خدشہ تھا، ایک وسوسہ تھا جو میرے چاروں اطراف پھیلتا جارہا تھا۔ الہٰی خیر، روبی خریت سے ہو۔ اسی امیدو ناامیدی کی کیفیت میں، میں دفتر سے اٹھا اور گھر چلا آیا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی فیس بک پر آبیٹھا۔ آج تو فیس بک بھی میری توجہ بٹانے سے قاصر تھی۔ اچانک سیل فون نے بلنک کرنا شروع کردیا، دوسری جانب ڈاکٹر عالم خان بول رہے تھے۔ ان کی آواز کافی رندھی ہوئی تھی۔ اشرف جاوید صاحب روبی صاحب چلے گئے ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو گر کر میرا چہرہ بھگو چکے تھے۔ میری آواز کہیں حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ میں ڈاکٹر صاحب کو کوئی جواب نہ دے سکا اور فون بند ہوگیا۔
احمد عقیل روبی کا مسودہ ’’یادوں کے جھروکوں سے‘‘ میرے سامنے ہے اور میں اس جھروکے سے، جس سے وہ دوسروں کو دیکھا کرتا تھا، اسے دیکھ رہا ہوں۔ وقت نے اسے تصویر بناکر چوکھٹے میں جڑ دیا ہے۔ میرے دل کے چوکھٹے میں جہاں پہلے سے میرغالب، فیض، ندیم، فرازاور منیر کی تصویریں آویزاں ہیں، یہ دل بھی کیا نگار خانہ ہے جو نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ دل کے نہاں خانے میں روشن ہوجاتا ہے۔