1972ءمیں صدر بھٹو کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات میں گزارش کی کہ وزیر، مشیر اور اراکین ان کو درست مشورے نہیں دے سکتے۔ پارٹی کے نظریاتی کارکن ہی انکی آنکھیں اور کان بن سکتے ہیں۔ بھٹو نے اس رائے سے اتفاق کیا اور مجھے کہا کہ ان کو وفاقی وزیر رفیع رضا کے ذریعے پارٹی کی صورتحال اور عوام کے مسائل سے آگاہ رکھوں۔ بھٹو اور بے نظیر پارٹی کے کارکنوں کو ریڑھ کی ہڈی سمجھتے تھے اور ان سے براہ راست اور بالواسطہ رابطہ استوار رکھتے تھے۔ آصف علی زرداری نے کارکنوں سے رابطہ منقطع کردیا اور وہ زمینی حقائق کا درست ادراک نہیں کرسکتے۔ طویل عرصے کے بعد انہوں نے بلاول ہاﺅس لاہور میں پنجاب کے ضلعی صدور کا اجلاس طلب کیا تو ان کو احساس ہوا کہ پنجاب میں پی پی پی کے کارکنوں اور حامیوں کی سوچ ان کے فلسفہ¿ سیاست سے یکسر مختلف ہے۔ ضلعی صدور نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ صرف بلاول بھٹو ہی پنجاب میں پی پی پی کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں۔ سردار سلیم حیدر (اٹک) نے سکوت توڑتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے جیالے منتظر ہیں کہ بلاول بھٹو پارٹی کی قیادت سنبھالیں۔ دیگر ضلعی صدور رائے شاہ جہاں، ملک طاہر، محمد مشتاق، زاہد ذوالفقار، ذکی چوہدری اور محمد افضل نے بھی بلاول بھٹو کو پنجاب میں لانے پر زور دیا اور تجویز پیش کی کہ پنجاب کے ہر ڈویژن میں ریلی منعقد کرکے پارٹی کو فعال اور متحرک بنایا جائے۔ آصف زرداری نے کہا کہ اس وقت حالات سرگرم اور پرجوش سیاست کیلئے سازگار نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ وہ خود پارٹی کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور بلاول بھٹو مناسب وقت پر پنجاب آئینگے۔ اس اجلاس میں تسلسل کے ساتھ بھٹو کے نعرے لگتے رہے۔ آصف زرداری پارٹی کے لیڈر ہیں مگر پارٹی اجلاسوں میں انکے نعرے نہیں لگائے جاتے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ آصف زرداری کرشماتی لیڈر نہیں بن سکے۔
پی پی پی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کہتے ہیں کہ ”پی پی پی کے حامیوں اور کارکنوں نے بلاول بھٹو کی قیادت کو تسلیم کرلیا ہے“۔بھٹو اور بے نظیر کی طرح بلاول بھی کرشماتی لیڈر ہیں۔ عوامی اور جمہوری سیاست میں لیڈر کی عوامی قبولیت لازم ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام نے آصف علی زرداری کی قیادت کو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت تو قبول کیا مگر جیالے ان کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آصف زرداری پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کرسکتے۔ لاہور کے ایک سرگرم جیالے اکبر خان مرحوم کے صاحبزادے کی ولیمہ تقریب میں جیالوں سے ملاقات ہوئی۔ سب متفق تھے کہ بلاول بھٹو کے بغیر پارٹی فعال نہیں ہوسکتی۔ اس کالم کیلئے محدود سروے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ بلاول بھٹو اپنی پرجوش تقریروں سے جیالوں کے دلوں میں گھر کرچکے ہیں۔ اسلم گل، سجاد بخاری، فرخ چوہدری، خاقان بابر، منور انجم اور چوہدری غلام رسول کہتے ہیں کہ جیالے بے چینی سے بلاول بھٹو کا انتظار کررہے ہیں۔ نوید چوہدری کی رائے ہے کہ پنجاب میں یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد بلاول بھٹو کو لاہور اتارا جائے اور بے نظیر بھٹو کی طرح ان کا استقبال کیا جائے مگر ایک اور صائب رائے یہ ہے کہ جب تک بلاول بھٹو پارٹی میں جان پیدا نہیں کرتے تنظیم سازی ممکن نہیں ہوگی۔ آیت اللہ درانی کہتے ہیں کہ بھٹو خاندان سیاسی پیر خانہ ہے لہذا اس پیر خانہ کو بند کرنے کی بجائے بلاول بھٹو کو قیادت سونپی جائے۔
آصف زرداری عوامی سیاسی جماعت کو جمہوری اصولوں اور عوامی رائے کے برعکس چلانا چاہتے ہیں۔ بادشاہت میں فیصلے من مرضی سے کیے جاتے ہیں جبکہ جمہوریت میں فیصلے جمہور کی منشا کیمطابق کرنے پڑتے ہیں۔ اخباری رپورٹوں کیمطابق آصف زرداری بلاول کی بجائے بختاور کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ بھٹو نے اپنے بیٹوں کی بجائے اپنی بیٹی بے نظیر کے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیا تھاکیونکہ ان کو علم تھا کہ بے نظیر میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ بھٹو کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور بے نظیر دو بار پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ آصف زرداری اپنی حکمت عملی کیمطابق پارٹی چلانے پر بضد ہیں۔ ایک قابل اعتماد ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنے قریبی رفقاءکو کہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی فلسفہ پر ڈٹے رہیں گے چاہے انہیں بلاول اور چند پارٹی رہنماﺅں کی سیاسی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ آصف زرداری پہلے سیاست دان ہیں جو اجتماعی دانش کو مسترد کررہے ہیں۔ پی پی پی دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ آصف زرداری کے وفادار اور بھٹو کے کامریڈوں کے درمیان پارٹی پر بالادستی کیلئے کشمکش جاری ہے۔ پی پی پی کے جیالے منظور وٹو کو صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ کررہے تھے کہ آصف زرداری نے ایک اور نان جیالے مخدوم احمد محمود کو جنوبی پنجاب کا صدر نامزد کردیا ہے۔ پی پی پی کے جیالے اپنے دلوں میں یہ نعرے لگارہے ہیں ”قدم بڑھاﺅ بلاول بھٹو ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ بلاول بھٹو کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف طاقتور اور بااثر والد ہیں اور دوسری جانب بھٹو اور بے نظیر کا سیاسی ورثہ جسے وہ محفوظ بنانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ بلاول کو پاکستان اور پی پی پی کے مستقبل کیلئے اپنے والد سے اختلاف کی جرا¿ت کر لینی چاہیئے۔ آصف زرداری نے سیاسی اور آئینی طاقت ہاتھ میں لیکر پانچ سال حکومت کرلی مگر پارٹی تباہ کردی۔ اپوزیشن میں پی پی پی ایک بار پھر ابھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ بلاول بھٹو پارٹی کی قیادت سنبھال کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔
قابل اعتماز تازہ اطلاعات کیمطابق آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں اور بلاول بھٹو عنقریب پنجاب آکر عملی سیاست کا آغاز کرینگے۔ توقع ہے کہ انکو کافی حد تک فری ہینڈ دیا جائیگا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں مرکزی قائد کے نام سے ہی چلتی ہیں۔ جن جماعتوں کی سیاسی قیادت عملی سیاست سے کنارہ کش ہوکر رہ جائے انکی عوام میں پذیرائی نہیں ہوتی۔ سانحہ پشاور کے بعد آصف زرداری اور بلاول بھٹو کوئی بھی پشاور نہ پہنچا جس سے خیبر پختونخواہ میں پی پی پی کو سخت دھچکا لگا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پشاور پہنچے مگر عوام اپنے دکھ اور درد کے موقع پر مرکزی قیادت کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر سکیورٹی خدشات کے باوجود عوام کے درمیان رہتے تھے۔ اسی جرا¿ت اور دلیری کی وجہ سے وہ پاکستان کی سیاست پر چھائے رہے۔ بلاول بھٹو کو بھی اسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے پاس جانا پڑےگا۔ پی پی پی کے جیالے بلاول بھٹو پر دباﺅ بڑھانے کیلئے کم بلاول کم "Come Bilawal Come" کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آصف علی زرداری اگر پی پی پی کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دینا ہوگا۔ پاکستان کے عوام اپنے بنیادی مسائل کے حوالے سے سخت کرب اور عذاب سے گزر رہے ہیں اور ایک ایسے بہادر سیاسی رہنما کی تلاش میں ہیں جو حکمرانوں کا سیاسی قبلہ درست کرکے عوام کو ریلیف دلائے۔ پی پی پی کے نظریاتی جیالوں کو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیئے۔ پی پی پی کے سیاسی مستقبل کیلئے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے آواز اُٹھانا ان کا جمہوری حق ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ اب بھی خاموش رہے اور پارٹی کا مستقبل ہی تاریک ہوگیا تو بھٹو اور بے نظیر کی روحیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ قومی جمہوری سیاسی اور عوامی پارٹی کو فرد واحد کی ذاتی خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔
قدم بڑھاﺅ بلاول بھٹو ہم تمہارے ساتھ ہیں
٭....٭....٭