کیا بھارت کے ساتھ دوستی ممکن ہے

تاریخ بدل سکتی ہے جغرافیہ نہیں‘ دوست بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں‘ یہ دو سحرانگیز پیار کے جادو سے بھرے فقرے ہندوستان اور پاکستان کے تمام سیاسی رہنما¶ں کے مُنہ سے بار بار سُن سُن کر کان تھک گئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کچھ ایسی ہی صورتحال روز اول سے چلی آرہی ہے۔ ایک ہزار میل لمبی پاک بھارت سرحد دنیا کی طویل ترین میدانی سرحدوں میں سے ایک ہے۔ ایک ہزار میل! دونوں ملکوں کی عوام اگر چاہیں تو بیک وقت آمنے سامنے برابر کھڑے ہو کر مصافحہ کر سکتے ہیں مگر اس سرحد پر خاردار تاروں اور بجلی کے کرنٹ والی پُر خطر باڑھ لگی ہے اب تو پرندے بھی آر پار جانے سے خوف کھاتے ہبں۔ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد عروج پر ہے دشمنی کو دہشت گردی نے دوآتشہ کر دیا ہے۔ اب ایسے میں پڑوسیوں کے درمیان لین دین جائیداد کے بٹوارے اور جگہ کے قبضے کا تنازعہ بھی موجود ہو تو یہ پڑوس آتش فشاں سے کم نہیں ہوتا۔ جس میں کوئی بیل پودا یا جیوا گایا نہیں جا سکتا۔ امنگ‘ پیار‘ دوستی اور والہانہ محبت تو دور کی بات ہے۔ یہ تو ہے وہ پڑوس جس کو بدلنا ممکن نہیں!

اب آیئے جغرافیے تاریخ کی جانب! برصغیر میں اسلام نے ہندو مذہب میں موجود خرابی یعنی ذات پات کے تعصبات سے فائدہ اٹھا کر اپنی تہذیبی برتری کے سبب ایک علیحدہ قوم کا تشخص حاصل کر لیا۔ ایک ہزار سال تک حکمرانی مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری اور قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کرتی ہے پھر انگریزوں کی غلامی کے خلاف دونوں قوموں نے دو علیحدہ پلیٹ فارموں سے جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران کانگریس اور مسلم لیگ کی باہمی آویزش کے سبب ان کی راہیں الگ ہو گئیں۔ دو ملک بن گئے یا یوں کہئے گھر کے دو حصے ہو گئے۔ دونوں پڑوسی بھی ٹھہرے اور بھائی بھی لیکن دلوں میں جو کدورت پڑ گئی تھی اسے کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی ہر کوشش کامیاب ہوئی۔ ہندو قیادت نے کشمیر میں استصواب کا وعدہ پورا نہ کیا اثاثوں کی تقسیم میں ڈنڈی ماری اور ہجرت کرتے نہتے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ گویا دشمنی کا الاو¿ شروع دن سے جلا دیا گیا پھر جونہی موقع لگا پاکستان کے دو ٹکڑے بھی کر دیئے۔
قوموں کی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی لانے کے دو ہی طریقے ہیں اول لیڈر شپ دوئم جنگ‘ عالمی جنگوں کے بعد دنیا کے نقشے پر کئی بار تبدیلیاں رونما ہوئیں سرحدیں تبدیل ہوئیں۔ سلطنتیں تاراج ہو کر نئی ریاستوں میں ڈھل گئیں مگر وقت کیساتھ عالمی سامراج نے اپنی انتظامی مجبوریوں کے سبب نوآبادیاتی نظام کی شکل صورت اور اپنے طریقہ واردات میں تبدیلی پیدا کی اور قوموں کو غلام بنانے کے بجائے ذہنوں کو غلام بنانے کا طریقہ اپنایا۔ قومی نمائندگی کے ذریعہ جمہوری معاشروں کی تشکیل کی پالیسی اپنائی اور پھر معاشروں کے حکمرانوں کو اپنے مفادات کے دھاگوں سے باندھ کر پُتلی تماشہ رچایا۔ اب ان کا ہتھیار براہ راست حکمرانی کے بجائے بلواسطہ قرار پایا۔ اپنے وسیع وسائل‘ اعلیٰ تکنیکی مہارت‘ تعلیمی برتری کے سبب ایسٹ انڈیا جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جال پھینکا، دوسری جانب سیاسی برتری کےلئے یو این او سکیورٹی کونسل وغیرہ کی چھتری مہیا کی۔ ایٹمی طاقت‘ جدید اسلحہ‘ فوجی برتری کیساتھ اب عالمی نظام تین ستونوں پرکھڑا ہے۔ 1 معاشی کنٹرول 2 سیاسی کنٹرول 3 فوجی برتری‘ رفتہ رفتہ اس نظم و نسق پر اکلوتی سپر پاور نے غلبہ حاصل کر لیا۔ یہ سپر پاور اپنے نام نہاد حواریوں کے ذریعہ دنیا کے ڈھائی سو ملکوں پر فی الحقیقت حکمران ہے۔ سپر پاور کا فلسفہ اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے محور کے گرد گھومتا ہے۔ حالیہ مذہبی تہذیبی آویزش بھی سپر پاور کی ان پالیسیوں کا حصہ ہے جن کے تحت وہ قوموں کے باہم نفاق سے مزید طاقت اہمیت حاصل کرتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت دنیا کے بڑے مذاہب اسلام، عسائیت اور یہودیت کے مابین تاریخی اختلافات کا سہارا لے کر پرانا حساب برابر کرنے کے نام پر نیا حساب کھولا گیا مگر یہ حساب براہ راست ٹکراو¿ یا کھلی جنگ کا نہیں بلکہ اسلام کو ٹارگٹ کر کے اسلامی ملکوں اور معاشروں کو اندر سے توڑنے اور تقسیم کرنے کا حربہ اختیار کیا گیا ہے۔ اب ایسے ماحول میں پاکستان اپنے اسلامی تشخص‘ ایٹمی صلاحیت اور سٹریٹجیک محل وقوع کے سبب تینوں عالمی شرپسندوں کے نشانے پر ہے۔
بھارت کو اس سے بڑا موقع کب ملے گا وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو حتمی نقصان پہنچانے کا یہی آخری موقع ہے۔ اسے کہتے ہیں بغل میں چُھری منہ میں رام رام! بھائی یہ تو مرنے مارنے کا موسم آگیا! مشرق وسطیٰ کے وسائل تتر بتر، اسلامی ممالک سب اپنے اپنے زخم چاٹنے میں مصروف، سب کی عسکری اہلیت برباد۔ افغانستان کی عسکری افرادی قوت کو ملیا میٹ کرنے کےلئے وہاں اسامہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اب سین یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے وجود اور قائم رہنے کا سوال درپیش ہے۔ اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکلے تو دوستی بھی ہو جائیگی !
ہمارا واحد آپشن چین ہے۔ جتنی دوستی کرنی ہے چین سے کرلو‘ بھارت کے حصے کی بھی چین سے کرلو! تقدیر نے ہمیں چین کیساتھ باندھ دیا ہے۔ہماری بربادیوں کے مشورے کرنےوالوں کا ایجنڈہ ہے کہ پہلے پاکستان کو اندر سے کمزور کرو اسکی معیشت تباہ کرو ایٹمی قوت سے فارغ کرو۔ ان حالات مبں جو لوگ بھارت کےساتھ دوستی کے امکانات تلاش کرتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ پاکستان کی سروائی ول کا انحصار اسکی اپنی طاقت اور چین کےساتھ باہم گٹھ جوڑ پر ہے نہ کہ بھارت کےساتھ دوستی پر‘ بھارت کو اب پاکستان کی محبت بہت ستائے گی خصوصاً جب اسے وسط ایشیا اور افغانستان تک زمینی راستہ کا سہانہ خواب لبھاتا ہے۔ بھارت اپنی نیت صاف کرے‘ کشمیر کا فیصلہ اس کی نیت کا امتحان ہے۔ پڑوسی کےلئے کیا مشکل ہوتا ہے نیت کے امتحان میں تو اسے بیٹھنا ہی پڑتا ہے نا! صبح و شام! اٹھتے بیٹھتے! اب جو اس امتحان میں بیٹھے ہی نا اس سے دوستی چہ معنی دارد ؟ تاریخ اور پڑوسی والا الہامیہ کچھ یوں بھی ہونا چاہئے! ماضی تو بدلا نہیں جاسکتا آو¿ مستقبل ہی بدل لیں! مگر بھارت صرف بھیس بدلتا ہے دل نہیں‘ چہرے بدلتا ہے نیت نہیں!

ای پیپر دی نیشن